Monday, 22 September 2025

🌟 نیلہ کے قابلِ فخر شخصیت – خالد سلیم صاحب 🌟 نیلہ کے معروف سماجی رہنما جناب خالد سلیم صاحب، جنہیں ’’صدا بہار چیئرمین‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کئی سالوں تک سیاست اور عوامی خدمت سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کی دردمندی، خدمتِ خلق اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی انہیں نیلہ کا ہر دل عزیز بناتی ہے۔ 🌸 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت، تندرستی اور طویل عمر عطا فرمائے، تاکہ وہ اسی طرح اپنی خدمات سے گاؤں کے نوجوانوں کے لیے روشن مثال بنتے رہیں اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ ❤️ نیلہ کے نوجوانوں کے لیے خالد سلیم صاحب ایک زندہ مثال ہیں، جو ثابت کرتی ہے کہ محنت، خدمت اور دیانت سے معاشرہ بدل سکتا ہے۔ 🤝 آپ میں سے کتنے لوگ خالد سلیم صاحب کو ذاتی طور پر جانتے ہیں یا ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں؟ کمنٹس میں ضرور بتائیں اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کریں۔


🌟 نیلہ کے قابلِ فخر شخصیت – خالد سلیم صاحب 🌟

نیلہ کے معروف سماجی رہنما جناب خالد سلیم صاحب، جنہیں ’’صدا بہار چیئرمین‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کئی سالوں تک سیاست اور عوامی خدمت سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کی دردمندی، خدمتِ خلق اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی انہیں نیلہ کا ہر دل عزیز بناتی ہے۔

🌸 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت، تندرستی اور طویل عمر عطا فرمائے، تاکہ وہ اسی طرح اپنی خدمات سے گاؤں کے نوجوانوں کے لیے روشن مثال بنتے رہیں اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔

❤️ نیلہ کے نوجوانوں کے لیے خالد سلیم صاحب ایک زندہ مثال ہیں، جو ثابت کرتی ہے کہ محنت، خدمت اور دیانت سے معاشرہ بدل سکتا ہے۔

🤝 آپ میں سے کتنے لوگ خالد سلیم صاحب کو ذاتی طور پر جانتے ہیں یا ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں؟ کمنٹس میں ضرور بتائیں اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کریں۔

نیلہ سکول – خواب، حقیقت اور ہماری ذمہ داریاں نیلہ سکول ایک تاریخی ادارہ ہے۔ اس کی بنیاد 1947 سے پہلے ایک سکھ شخصیت، سردار موتا سنگھ بھاسن نے رکھی، جو تعلیم کی روشنی گاؤں کے ہر بچے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اُس وقت یہ ادارہ محبت، خدمت اور امن کی علامت تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سکول اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا اور آج تک نیلہ اور آس پاس کے دیہات کے بچوں کے لئے تعلیم کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج، 2025 میں بھی یہ سکول صرف دسویں جماعت تک محدود ہے۔ یہ سوال ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر کیوں؟ 🔹 ہماری کمزوریاں ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات میں تعلیم کو وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ سکول کی عمارت اور عملہ تو موجود رہا، لیکن وسائل بڑھانے اور سہولتیں فراہم کرنے میں ہماری رفتار سست رہی۔ 🔹 سیاسی کمزوریاں ہمارے علاقے کی سیاست زیادہ تر وقتی فائدوں، ذاتی تعلقات اور پارٹی وابستگیوں کے گرد گھومتی رہی۔ تعلیم جیسے بنیادی اور دیرپا کام پر وہ توجہ نہ دی گئی جو ہونی چاہیے تھی۔ نیلہ سکول کے توسیعی منصوبے، کالج کی سطح تک اپگریڈ کرنے یا بہتر عملہ فراہم کرنے کے اقدامات وقت پر نہ ہو سکے۔ 🔹 اتحاد کی کمی ہم نے ایک کمیونٹی کے طور پر مل کر آواز نہیں اٹھائی۔ اگر گاؤں والے، والدین، سابق طلبہ اور مقامی نمائندے ایک ساتھ ہو کر مستقل مہم چلاتے تو آج یہ سکول شاید انٹر یا ڈگری سطح تک ہوتا۔ 🔹 نتیجہ نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بچے دسویں جماعت کے بعد دور دراز کے سکولوں یا کالجوں میں جانے پر مجبور ہیں، جس سے نہ صرف اُن پر بلکہ اُن کے والدین پر بھی مالی و ذہنی بوجھ پڑتا ہے۔ 🔹 آگے کا راستہ یہ مایوسی کا مقام نہیں بلکہ سوچنے اور بدلنے کا لمحہ ہے۔ اگر آج ہم متحد ہو جائیں، سیاسی دباؤ ڈالیں، مقامی مخیر حضرات کو شامل کریں، اور حکومت کے اداروں کو مسلسل یاددہانی کروائیں، تو یہ سکول انٹر یا ڈگری لیول تک بڑھ سکتا ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو ہمیں سردار موتا سنگھ بھاسن اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کرنے کیلئے ادا کرنا ہے۔ 🌸 نیلہ سکول صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کا دروازہ ہے۔ اسے آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ---

نیلہ سکول – خواب، حقیقت اور ہماری ذمہ داریاں

نیلہ سکول ایک تاریخی ادارہ ہے۔ اس کی بنیاد 1947 سے پہلے ایک سکھ شخصیت، سردار موتا سنگھ بھاسن نے رکھی، جو تعلیم کی روشنی گاؤں کے ہر بچے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اُس وقت یہ ادارہ محبت، خدمت اور امن کی علامت تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سکول اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا اور آج تک نیلہ اور آس پاس کے دیہات کے بچوں کے لئے تعلیم کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج، 2025 میں بھی یہ سکول صرف دسویں جماعت تک محدود ہے۔ یہ سوال ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر کیوں؟

🔹 ہماری کمزوریاں

ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات میں تعلیم کو وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ سکول کی عمارت اور عملہ تو موجود رہا، لیکن وسائل بڑھانے اور سہولتیں فراہم کرنے میں ہماری رفتار سست رہی۔

🔹 سیاسی کمزوریاں

ہمارے علاقے کی سیاست زیادہ تر وقتی فائدوں، ذاتی تعلقات اور پارٹی وابستگیوں کے گرد گھومتی رہی۔ تعلیم جیسے بنیادی اور دیرپا کام پر وہ توجہ نہ دی گئی جو ہونی چاہیے تھی۔ نیلہ سکول کے توسیعی منصوبے، کالج کی سطح تک اپگریڈ کرنے یا بہتر عملہ فراہم کرنے کے اقدامات وقت پر نہ ہو سکے۔

🔹 اتحاد کی کمی

ہم نے ایک کمیونٹی کے طور پر مل کر آواز نہیں اٹھائی۔ اگر گاؤں والے، والدین، سابق طلبہ اور مقامی نمائندے ایک ساتھ ہو کر مستقل مہم چلاتے تو آج یہ سکول شاید انٹر یا ڈگری سطح تک ہوتا۔

🔹 نتیجہ

نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بچے دسویں جماعت کے بعد دور دراز کے سکولوں یا کالجوں میں جانے پر مجبور ہیں، جس سے نہ صرف اُن پر بلکہ اُن کے والدین پر بھی مالی و ذہنی بوجھ پڑتا ہے۔

🔹 آگے کا راستہ

یہ مایوسی کا مقام نہیں بلکہ سوچنے اور بدلنے کا لمحہ ہے۔ اگر آج ہم متحد ہو جائیں، سیاسی دباؤ ڈالیں، مقامی مخیر حضرات کو شامل کریں، اور حکومت کے اداروں کو مسلسل یاددہانی کروائیں، تو یہ سکول انٹر یا ڈگری لیول تک بڑھ سکتا ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو ہمیں سردار موتا سنگھ بھاسن اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کرنے کیلئے ادا کرنا ہے۔

🌸 نیلہ سکول صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کا دروازہ ہے۔ اسے آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔


---
نیلہ سکول – خواب، حقیقت اور ہماری ذمہ داریاں

نیلہ سکول ایک تاریخی ادارہ ہے۔ اس کی بنیاد 1947 سے پہلے ایک سکھ شخصیت، سردار موتا سنگھ بھاسن نے رکھی، جو تعلیم کی روشنی گاؤں کے ہر بچے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اُس وقت یہ ادارہ محبت، خدمت اور امن کی علامت تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سکول اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا اور آج تک نیلہ اور آس پاس کے دیہات کے بچوں کے لئے تعلیم کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج، 2025 میں بھی یہ سکول صرف دسویں جماعت تک محدود ہے۔ یہ سوال ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر کیوں؟

🔹 ہماری کمزوریاں

ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات میں تعلیم کو وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ سکول کی عمارت اور عملہ تو موجود رہا، لیکن وسائل بڑھانے اور سہولتیں فراہم کرنے میں ہماری رفتار سست رہی۔

🔹 سیاسی کمزوریاں

ہمارے علاقے کی سیاست زیادہ تر وقتی فائدوں، ذاتی تعلقات اور پارٹی وابستگیوں کے گرد گھومتی رہی۔ تعلیم جیسے بنیادی اور دیرپا کام پر وہ توجہ نہ دی گئی جو ہونی چاہیے تھی۔ نیلہ سکول کے توسیعی منصوبے، کالج کی سطح تک اپگریڈ کرنے یا بہتر عملہ فراہم کرنے کے اقدامات وقت پر نہ ہو سکے۔

🔹 اتحاد کی کمی

ہم نے ایک کمیونٹی کے طور پر مل کر آواز نہیں اٹھائی۔ اگر گاؤں والے، والدین، سابق طلبہ اور مقامی نمائندے ایک ساتھ ہو کر مستقل مہم چلاتے تو آج یہ سکول شاید انٹر یا ڈگری سطح تک ہوتا۔

🔹 نتیجہ

نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بچے دسویں جماعت کے بعد دور دراز کے سکولوں یا کالجوں میں جانے پر مجبور ہیں، جس سے نہ صرف اُن پر بلکہ اُن کے والدین پر بھی مالی و ذہنی بوجھ پڑتا ہے۔

🔹 آگے کا راستہ

یہ مایوسی کا مقام نہیں بلکہ سوچنے اور بدلنے کا لمحہ ہے۔ اگر آج ہم متحد ہو جائیں، سیاسی دباؤ ڈالیں، مقامی مخیر حضرات کو شامل کریں، اور حکومت کے اداروں کو مسلسل یاددہانی کروائیں، تو یہ سکول انٹر یا ڈگری لیول تک بڑھ سکتا ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو ہمیں سردار موتا سنگھ بھاسن اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کرنے کیلئے ادا کرنا ہے۔

🌸 نیلہ سکول صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کا دروازہ ہے۔ اسے آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔


---

Saturday, 2 August 2025

نیلہ گاؤں کی سرزمین ہمیشہ ایسے عظیم لوگوں کو جنم دیتی ہے جنہوں نے علم کی روشنی پھیلائی اور نسلوں کی تقدیر بدلی۔ انہی باوقار ہستیوں میں ایک نمایاں نام سر احمد خان صاحب کا ہے۔ آپ 1953 کو پیدا ہوئے آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول نیلہ میں طویل عرصے تک تدریسی خدمات انجام دیں اور ایک وقت میں ہیڈ ماسٹر کے طور پر بھی اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔ غالباً 2013 میں آپ ریٹائر ہوئے، مگر تعلیم سے محبت کا سفر یہیں نہیں رکا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے نیلہ میں واحد گرلز کالج کی بنیاد رکھی اور اس کے انتظامات سنبھالے۔ آج بھی آپ کی سربراہی میں نیلہ میں واقع "کونسیپٹ سکول" (Concept School)، جو کہ ربانیہ مسجد کے قریب ہے، کامیابی سے چل رہا ہے۔ سر احمد خان صاحب کا اندازِ تدریس نہایت دلچسپ، معنی خیز اور مؤثر تھا۔ خاص طور پر انگریزی اور عربی کے تراجم کے ساتھ پڑھانا ان کی پہچان بن چکی تھی، جس سے طالب علموں کو گہرائی سے علم حاصل ہوتا تھا۔ آپ کی محنت، محبت اور خلوص کی بدولت نہ صرف نیلہ بلکہ آس پاس کے مضافاتی علاقوں سے بھی طلباء نیلہ سکول کا رخ کرتے تھے — صرف اس لیے کہ یہاں احساس رکھنے والا ایک عظیم استاد موجود تھا۔ یہ حقیقت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نیلہ سکول ایک وقت میں پورے علاقے کا واحد بااعتماد تعلیمی ادارہ تھا، جہاں سے سینکڑوں بچوں نے کامیابی کی منزلیں طے کیں۔ آج بھی یہاں کا تعلیمی معیار شاندار ہے — آپ جیسے اساتذہ کی بدولت۔ --- 💬 کیا آپ نے بھی سر احمد خان صاحب سے پڑھا ہے؟ ان کا کوئی جملہ، نصیحت یا اندازِ تدریس یاد ہے؟ کمنٹ میں اپنی یاد ضرور شیئر کریں۔ آپ کا ایک جملہ، ان کے لیے سب سے خوبصورت خراجِ تحسین ہو سکتا ہے۔ 🙏 اگر آپ بھی سر احمد خان صاحب کو سلام پیش کرنا چاہتے ہیں، تو کمنٹ میں دعا، محبت یا یاد کا کوئی خوبصورت لفظ ضرور لکھیں۔ اللہ سر احمد خان کو لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔ یا دعا ہے کہ سر احمد خان ہمیشہ سلامت رہیں اور عمر دراز پائیں Ubaid Neela Neela Chakwal نیلہ چکوال Neelay Alay Neela Chakwal

نیلہ گاؤں کی سرزمین ہمیشہ ایسے عظیم لوگوں کو جنم دیتی ہے جنہوں نے علم کی روشنی پھیلائی اور نسلوں کی تقدیر بدلی۔ انہی باوقار ہستیوں میں ایک نمایاں نام سر احمد خان صاحب 
کا ہے۔
آپ 1953 کو پیدا ہوئے 

آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول نیلہ میں طویل عرصے تک تدریسی خدمات انجام دیں اور ایک وقت میں ہیڈ ماسٹر کے طور پر بھی اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔
غالباً 2013 میں آپ ریٹائر ہوئے، مگر تعلیم سے محبت کا سفر یہیں نہیں رکا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے نیلہ میں واحد گرلز کالج کی بنیاد رکھی اور اس کے انتظامات سنبھالے۔
آج بھی آپ کی سربراہی میں نیلہ میں واقع "کونسیپٹ سکول" (Concept School)، جو کہ ربانیہ مسجد کے قریب ہے، کامیابی سے چل رہا ہے۔

سر احمد خان صاحب کا اندازِ تدریس نہایت دلچسپ، معنی خیز اور مؤثر تھا۔
خاص طور پر انگریزی اور عربی کے تراجم کے ساتھ پڑھانا ان کی پہچان بن چکی تھی، جس سے طالب علموں کو گہرائی سے علم حاصل ہوتا تھا۔

آپ کی محنت، محبت اور خلوص کی بدولت نہ صرف نیلہ بلکہ آس پاس کے مضافاتی علاقوں سے بھی طلباء نیلہ سکول کا رخ کرتے تھے — صرف اس لیے کہ یہاں احساس رکھنے والا ایک عظیم استاد موجود تھا۔

یہ حقیقت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نیلہ سکول ایک وقت میں پورے علاقے کا واحد بااعتماد تعلیمی ادارہ تھا، جہاں سے سینکڑوں بچوں نے کامیابی کی منزلیں طے کیں۔
آج بھی یہاں کا تعلیمی معیار شاندار ہے — آپ جیسے اساتذہ کی بدولت۔

---

💬 کیا آپ نے بھی سر احمد خان صاحب سے پڑھا ہے؟
ان کا کوئی جملہ، نصیحت یا اندازِ تدریس یاد ہے؟
کمنٹ میں اپنی یاد ضرور شیئر کریں۔
آپ کا ایک جملہ، ان کے لیے سب سے خوبصورت خراجِ تحسین ہو سکتا ہے۔

🙏 اگر آپ بھی سر احمد خان صاحب کو سلام پیش کرنا چاہتے ہیں، تو کمنٹ میں دعا، محبت یا یاد کا کوئی خوبصورت لفظ ضرور لکھیں۔
اللہ سر احمد خان کو لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔
یا
دعا ہے کہ سر احمد خان ہمیشہ سلامت رہیں اور عمر دراز پائیں

Ubaid Neela 
Neela Chakwal نیلہ چکوال 
Neelay Alay Neela Chakwal


Sunday, 13 July 2025

🟥 نیلا کی عوام سے ایک عوامی اپیل: جاگ جاؤ، ورنہ سب کچھ ختم ہو جائے گا! ہم نیلا کے لوگ ہیں… ہم نیلا کے باسی ہیں… ہم اس مٹی کے وارث ہیں جسے ہم نے خود نظر انداز کر دیا۔ آج اگر ہم شام کو چوک میں کھڑے ہوں تو ہر طرف اجنبی چہرے، رنگ برنگے لوگ، نامعلوم چالیں اور سوالیہ نظریں نظر آتی ہیں۔ پوچھنے پر پتا چلتا ہے: > "ہم فلاں ڈیرے پر کام کرتے ہیں۔" لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ کون لوگ ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ اور کس مقصد سے یہاں موجود ہیں؟ ہمارے کھیت اجنبیوں کے حوالے کر دیے گئے… اور ہم خود اپنے گاؤں میں اجنبی بنتے جا رہے ہیں۔ --- 🔴 ہم نے اپنا سب کچھ خود برباد کیا! ہمارا تھانہ نیلا جو انگریز دور کی شناخت تھا، ہم سے چھن گیا کالج، اسکول، گیس، پل سب وعدوں میں دفن ہو گئے ہماری قیادتیں صرف وڈیروں سے تصویریں بنوانے اور گورنروں سے مصافحے پر خوش ہیں عوام کو صرف یہ بتانے کی ضرورت سمجھی گئی کہ > "ہم فلاں ایم پی اے کے ساتھ بیٹھے تھے" "ہم فلاں جنازے پر گئے تھے" "ہم نے فلاں ولیمے میں شرکت کی تھی" اور ہم، عوام، اسی پر فخر کرتے رہے! --- 🟠 ہم اتنے بٹ چکے ہیں کہ جنازے اور فاتحہ خوانیاں بھی الگ ہو گئیں سیاسی نفرت… سیاسی ضد… مذہبی اختلاف… یہ سب ہمیں اس نہج پر لے آئے ہیں کہ اب ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں۔ اگر کوئی ایک سیاسی ترقیاتی کام کروانا چاہتا ہے تو دوسرا فوراً ٹانگ اڑا دیتا ہے۔ بس اس خوف سے کہ: > "اگر اس نے کام کروا لیا تو ہمارے ووٹ بند ہو جائیں گے!" یہی وجہ ہے کہ ماڈل ولیج بھی نہ بن سکا، پل بھی نہ بنا، گیس بھی نہ پہنچی، اور ہم صرف وعدوں میں زندہ رہے۔ --- 🟢 اب بھی وقت ہے — ہم اکٹھے ہو سکتے ہیں اگر چند باشعور لوگ ایک پیج پر آ جائیں اگر نیلا کے عوام مذہب، برادری، سیاست سے نکل کر صرف علاقائی مفاد کو ترجیح دیں اگر سیاسی قیادتیں ذاتی نہیں، عوامی سوچ اختیار کریں تو: ✅ ہم اپنا تھانہ واپس لا سکتے ہیں ✅ ہم اسکول و کالج اپگریڈ کروا سکتے ہیں ✅ ہم گیس کی سکیم مکمل کروا سکتے ہیں ✅ ہم نیلا اور ملک کو ایک ترقی یافتہ، باعزت، محفوظ علاقہ بنا سکتے ہیں --- ⚠️ ورنہ آنے والا وقت صرف اندھیرا ہے اگر اب بھی ہم بکھرے رہے، تو آنے والے وقت میں: ہمارے کھیتوں پر قبضے ہوں گے ہماری عزتیں غیرمحفوظ ہوں گی ہماری نسلیں دوسروں کی ملازمتوں پر مجبور ہوں گی اور ہمارا وجود صرف فوٹو گیلریوں اور پرانی یادوں تک محدود رہ جائے گا --- ✊ ہمیں جاگنا ہوگا — اب نہیں تو کبھی نہیں! ہم عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ: ❌ کیا ہم اب بھی صرف تصویری سیاست پر ووٹ دیں گے؟ ✅ یا ہم اب صرف ترقیاتی کام، سچائی، دیانتداری اور عوامی خدمت پر ووٹ دیں گے؟ اب ہمیں کہنا ہوگا: > "ہم ان کے پیچھے نہیں چلیں گے جنہوں نے سالوں میں صرف تصویریں دی ہیں، ہم اُن کے ساتھ کھڑے ہوں گے جو گاؤں کے لیے کچھ کر کے دکھائیں گے( منجانب یوتھ ونگ نیلا) تحریر عبدالرحمن نیلا --- 🧭 یہ تحریر نہیں، ایک تاریخی پکار ہے: #نیلا_جاگ_رہا_ہے # #ہم_عوام_ہیں_باشعور #اب_ترقی_کے_علاوہ_کوئی_ووٹ_نہیں #سیاسی_اتحاد_نہیں_تو_عوامی_اتحاد_ضرور --

🟥 نیلا کی عوام سے ایک عوامی اپیل: جاگ جاؤ، ورنہ سب کچھ ختم ہو جائے گا!

ہم نیلا کے لوگ ہیں…
ہم نیلا کے باسی ہیں…
ہم اس مٹی کے وارث ہیں جسے ہم نے خود نظر انداز کر دیا۔

آج اگر ہم شام کو چوک میں کھڑے ہوں تو ہر طرف اجنبی چہرے، رنگ برنگے لوگ، نامعلوم چالیں اور سوالیہ نظریں نظر آتی ہیں۔
پوچھنے پر پتا چلتا ہے:

> "ہم فلاں ڈیرے پر کام کرتے ہیں۔"

لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ کون لوگ ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ اور کس مقصد سے یہاں موجود ہیں؟

ہمارے کھیت اجنبیوں کے حوالے کر دیے گئے…
اور ہم خود اپنے گاؤں میں اجنبی بنتے جا رہے ہیں۔

---

🔴 ہم نے اپنا سب کچھ خود برباد کیا!

ہمارا تھانہ نیلا جو انگریز دور کی شناخت تھا، ہم سے چھن گیا

کالج، اسکول، گیس، پل سب وعدوں میں دفن ہو گئے

ہماری قیادتیں صرف وڈیروں سے تصویریں بنوانے اور گورنروں سے مصافحے پر خوش ہیں

عوام کو صرف یہ بتانے کی ضرورت سمجھی گئی کہ

> "ہم فلاں ایم پی اے کے ساتھ بیٹھے تھے"
"ہم فلاں جنازے پر گئے تھے"
"ہم نے فلاں ولیمے میں شرکت کی تھی"

اور ہم، عوام، اسی پر فخر کرتے رہے!

---

🟠 ہم اتنے بٹ چکے ہیں کہ جنازے اور فاتحہ خوانیاں بھی الگ ہو گئیں

سیاسی نفرت…
سیاسی ضد…
مذہبی اختلاف…
یہ سب ہمیں اس نہج پر لے آئے ہیں کہ اب ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں۔

اگر کوئی ایک سیاسی ترقیاتی کام کروانا چاہتا ہے تو دوسرا فوراً ٹانگ اڑا دیتا ہے۔
بس اس خوف سے کہ:

> "اگر اس نے کام کروا لیا تو ہمارے ووٹ بند ہو جائیں گے!"

یہی وجہ ہے کہ ماڈل ولیج بھی نہ بن سکا، پل بھی نہ بنا، گیس بھی نہ پہنچی، اور ہم صرف وعدوں میں زندہ رہے۔

---

🟢 اب بھی وقت ہے — ہم اکٹھے ہو سکتے ہیں

اگر چند باشعور لوگ ایک پیج پر آ جائیں
اگر نیلا کے عوام مذہب، برادری، سیاست سے نکل کر صرف علاقائی مفاد کو ترجیح دیں
اگر سیاسی قیادتیں ذاتی نہیں، عوامی سوچ اختیار کریں

تو:

✅ ہم اپنا تھانہ واپس لا سکتے ہیں
✅ ہم اسکول و کالج اپگریڈ کروا سکتے ہیں
✅ ہم گیس کی سکیم مکمل کروا سکتے ہیں
✅ ہم نیلا اور ملک کو ایک ترقی یافتہ، باعزت، محفوظ علاقہ بنا سکتے ہیں

---

⚠️ ورنہ آنے والا وقت صرف اندھیرا ہے

اگر اب بھی ہم بکھرے رہے،
تو آنے والے وقت میں:

ہمارے کھیتوں پر قبضے ہوں گے

ہماری عزتیں غیرمحفوظ ہوں گی

ہماری نسلیں دوسروں کی ملازمتوں پر مجبور ہوں گی

اور ہمارا وجود صرف فوٹو گیلریوں اور پرانی یادوں تک محدود رہ جائے گا

---

✊ ہمیں جاگنا ہوگا — اب نہیں تو کبھی نہیں!

ہم عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ:

❌ کیا ہم اب بھی صرف تصویری سیاست پر ووٹ دیں گے؟
✅ یا ہم اب صرف ترقیاتی کام، سچائی، دیانتداری اور عوامی خدمت پر ووٹ دیں گے؟

اب ہمیں کہنا ہوگا:

> "ہم ان کے پیچھے نہیں چلیں گے جنہوں نے سالوں میں صرف تصویریں دی ہیں،
ہم اُن کے ساتھ کھڑے ہوں گے جو گاؤں کے لیے کچھ کر کے دکھائیں گے( منجانب یوتھ ونگ نیلا) تحریر عبدالرحمن نیلا

---

🧭 یہ تحریر نہیں، ایک تاریخی پکار ہے:

#نیلا_جاگ_رہا_ہے
#
#ہم_عوام_ہیں_باشعور
#اب_ترقی_کے_علاوہ_کوئی_ووٹ_نہیں
#سیاسی_اتحاد_نہیں_تو_عوامی_اتحاد_ضرور

--

Historical village Neela

Wednesday, 19 February 2025

My Home Land Neela chakwal

بچپن کی یادیں ہمیشہ دل کے قریب ہوتی ہیں، خاص طور پر جب وہ یادیں گاؤں کی ہوں، جہاں فطرت کی معصومیت اور سادگی ہر طرف پھیلی ہوتی تھی۔ گاؤں کا ہر گوشہ، ہر راستہ، اور ہر منظر میری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ وہ گاؤں، جو میرے بچپن کا پیچھا کرتا ہے، میری روح میں گہری چھاپ چھوڑ گیا ہے۔ میرے گاؤں کی فضا ہمیشہ خوشبو سے مہک رہی ہوتی تھی۔ ہر طرف کھیتوں کا سبزہ، درختوں کا سایہ، اور کھلے آسمان کے نیچے وہ خوشگوار ہوا جو شہر کی آلودگی سے بالکل آزاد تھی۔ گاؤں کی زندگی میں کچھ خاص بات تھی، جو شہر میں نہ تھی۔ صبح سویرے جب آٹھتے ہوئے سورج کی کرنیں کھیتوں پر پڑتیں، تو ایک خوبصورت منظر ہوتا۔ پرندوں کی چہچہاٹ، درختوں کی سرسراہٹ اور مٹی کی خوشبو، یہ سب کچھ مجھے کبھی نہیں بھول سکتا۔ Ubaid Neela

Sunday, 1 December 2024

Neela

Explore the enchanting village of Neela Dullah Chakwal, renowned for its rich history, stunning landscapes, and vibrant culture. Discover hidden gems today!

Neela a village in chakwal

Tuesday, 26 November 2024

An historical plac in Neela chakwal

Neela Chakwal

بات حق اور سچ کی پچھلے تین چار دن سے ہم سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں ہیں کہ نیلہ میں گیس لگ رہی ہے جو کہ ہمارے گاوں اور ہمارے علا قہ کیلئے بہت خوشائند بات ہے۔ اس پر ہماری گاوں کی سیاسی پارٹیاں بڑھ چڑھ کے بول رہی ہیں کوئ کہہ رہا ہم نے کے ہم نے لگوائ ہم نے منظور کروائ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔ میں بقلم خود ان پارٹیوں کا حصہ نہیں ہوں کیوں کہ ہم pti سے منسلک ہیں ہم تو گیس لگوانے سے رہے۔۔۔۔لیکن بات ہمیشہ انسان کو حق پر کھڑے ہو کے کرنی چاہیئے ۔اگر میں غلط نہیں ہوں تو ہمارے گاوں کی گیس شائد 2018 میں جب PTI کی گورنمنٹ آئ تب اپروو کروائ گئ تھی اور اس وقت ہمارے MNA zulfiaqr Ali khan Dullah تھے۔ بعد ازاں اس پر ورکنگ ہوتی رہی کبھی کام رک جاتا کبھی پھر سٹارٹ ہو جاتا ۔ اور اس پر سردار ذوالفقار علی خان کی ٹیم کی بہت زیادہ محنت ہے ۔خاص کر میاں عامر عباس صاحب انہوں نے اپنی لاکھوں کروڑوں کی زمین اس کام کے لیے اور گاؤں کی خوشحالی کے لیے وقف کر دی سیلیوٹ یو سر ۔۔۔۔بات کو مختصر کرتا ہوں کہ نیلہ میں جو بھی اب تک ترقی یافتہ کام ہوا ہے وہ ایم این اے ذوالفقار علی خان نے اور ان کی ٹیم نے کروایا ہے جس میں چوہدری مقصود نیلہ ،میاں عامر عباس نیلہ ،چوہری رضوان نیلہ اور انکی پوری ٹیم پیش پیش رہی ہے۔۔۔۔ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ میرا کسی دھڑے سے کوئ واسطہ نہیں لیکن جو بھی ہمارے گاوں کی ترقی اور خوشحالی کیلۓ کام کرے گا اور خلوص نیت سے کرے گا ہم اسے خراج تحسین پیش ضرور کریں گے چاہے کوئ بھی ہو کسی بھی پارٹی سے ہو ۔۔۔اس لیے ہم چودری مقصود نیلہ میاں عامر عباس نیلہ اور ان کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی محنتوں اور کوششوں سے نیلہ کو ترقی کی راہ پہ گامزن کیا ۔۔۔۔۔باقی پیچھے رہے ہمارے نون لیگ والے بھائی تو ان سے گزارش ہے کہ کسی کی تیار فصل کاٹنے سے بہتر ہے اپنے کھیت اگاؤ اور انہیں کاٹو ۔۔۔ایسی ٹچی سیاست سے بہتر ہے بندہ گھر بیٹھ جائے ۔۔۔اج جو لوگ اگے آ کے تقریریں کر رہے ہیں 2018 میں ان کے داڑھی کےاور ۔۔۔۔۔۔۔۔ بال بھی نہیں ائے ہوں گے جب گیس کی منظوری ہوئی تھی ۔۔۔۔آج بس آکے نعرے مار کے کریڈٹ لینا چاہتے ہیں جو نہیں ملے گا۔۔۔کیوں کہ نیلہ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ کتنے پانی میں ہیں اور کون کتنا گاوں سے مخلص ہے

Tuesday, 2 April 2024

neela Chakwal

نہ ہم رہے دل لگانے کے قابل نہ دل رہا غم اٹھانے کے قابل
ربا تیرے بندوں نے دیے اتنے زخم رضوان چھوڑو نہ ہمیں مسکرانے کے قابل
ضلع چکوال کے نوائی گاؤں نیلہ دلہہ کی سرزمین کا خوبصورت منظر تمام لوگوں نے پاکستان کے ہر شہر کا سفر تو کیا ہوگا بہت سے انٹرچینج سے اپ گزرتے ہوں گے لیکن یہ میرے گاؤں کی خوبصورت مٹی کی خوشبو ہے جہاں پر نیلہ دلہہ انٹرچینج بنا ہوا ہے یہ محبت یہ چاہت یہ دل لگی یہ تمنا یہ خوشبو یہ وفا یہ ارزو نہ جانے کتنی کتنی خواہشیں یہاں پر قربان ہو جاتی ہیں جس نے یہ انٹرچینج نہیں دیکھا تو اس نے پاکستان میں میرے خیال سے کچھ نہیں دیکھا یہاں کے لوگ بہت سادہ زندگی بسر کرتے ہیں میرے گاؤں نیلہ کی خوبصورتی کچھ ان چیزوں سے بھی ظاہر ہوتی ہے
1947 سے پہلے کا بنا ہوا مندر سردار موت سنگھ کا بنایا ہوا سکول شیری فرہاد کی داستان 1947 سے پہلے کا بنا ہوا پولیس اسٹیشن دریا سواں کا گزرنا شاعری سے شوق رکھنے والے لوگ بیلوں کا جلسہ کبڈی کرکٹ والی بال فٹ بال پرانے زمانہ کی رسم و رواج جانوروں کے ساتھ ہل چلانا میرے گاؤں نیلہ کی خوبصورتی کا مناظر پیش کرتے ہیں تو ال پاکستان کے شوقین حضرات سے گزارش ہے کہ میرے گاؤں کا وزٹ کریں اور مزید معلومات کے لیے ہمارا نیلہ پیج کو فالو کریں شیئر کریں ہمارے نیلہ پیج کے ڈائریکٹر ایڈمن عبید الرحمن سے مزید گائیڈ لائن حاصل کریں

ubaid Neela

Neela Chakwal

Neela Chakwal

31 مارچ 2021 آج سے 3 سال قبل آصف محمود شہید ہم سے بچھڑ گئے تیری

میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا
میں حد سے بڑھ گیا ہوں، مجھے مار دیجیے

کرتا ہوں اہل جبّہ و دستار سے سوال
گستاخ ہو گیا ہوں ، مجھے مار دیجیے

خوشبو سے میرا ربط ہے جگنو سے میرا کام
کتنا بھٹک گیا ہوں ، مجھے مار دیجیے

معلوم ہے مجھے کہ بڑا جرم ہے یہ کام
میں خواب دیکھتا ہوں ، مجھے مار دیجیے

زاہد یہ زہد و تقویٰ و پرہیز کی روش
میں خوب جانتا ہوں ، مجھے مار دیجیے

بے دین ہوں مگر ہیں زمانے میں جتنے دین
میں سب کو مانتا ہوں ، مجھے مار دیجیے

پھر اس کے بعد شہر میں ناچے گا ہُو کا شور
میں آخری صدا ہوں ، مجھے مار دیجیے

میں ٹھیک سوچتا ہوں، کوئی حد میرے لیے ؟
میں صاف دیکھتا ہوں ، مجھے مار دیجیے

یہ ظلم ہے کہ ظلم کو کہتا ہوں صاف ظلم
کیا ظلم کر رہا ہوں ، مجھے مار دیجیے

میں عشق ہوں، میں امن ہوں، میں علم ہوں، میں خواب
اک دردِ لادوا ہوں ، مجھے مار دیجیے

زندہ رہا تو کرتا رہُوں گا ہمیشہ پیار
میں صاف کہہ رہا ہوں، مجھے مار دیجیے

جو زخم بانٹتے ہیں انہیں زیست پہ ہے حق
میں پھول بانٹتا ہوں ، مجھے مار دیجیے

ہے امن شریعت تو محبت مرا جہاد
باغی بہت بڑا ہوں ، مجھے مار دیجیے

بارود کا نہیں مرا مسلک درود ہے
میں خیر مانگتا ہوں، مجھے مار دیجیے.

اللہ ربّ العزت کے حضور دعا گو ہوں کہ اپنے پیارے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے اور رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کی فضیلت سے اللہ پاک ہمارے پیارے بھائی چوہدری آصف محمود شہید کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین یارب العالمین
Neela Chakwal نیلہ چکوال

Friday, 30 June 2023

نیلہ کبڈی شو میچ

 چکوال (غلام عباس جنجوعہ سے)  عید الضحٰی کے سلسلے میں ایک چیلنج کبڈی شو میچ "شاہ حسین کبڈی کلب چکوال" اور "جھاٹلہ کبڈی کلب تلہ گنگ" کے درمیان نیلہ کے مقام کھیلا گیا جس کے مہمان خصوصی چیئرمین عقیل احمد جاڑہ رئیس اعظم آف نیلہ تھے اس موقع پر چیئرمین محمد اکرم غازی آباد (واپڈا)، طارق مغل، ملک دانش، غلام صفدر، حافظ محمد اکرم دلہہ، میاں یاسر (پنجاب پولیس)، حاجی زمان نیلہ، بابو محمود اختر جاڑہ، طارق جاڑہ بھی ان کے ہمراہ تھے اور چوہدری شیراز علی خان پٹواری آف کرسال محمد عامر خان کرسال (ایڈمن اپنا کرسال نیوز) اس کبڈی میچ کو دیکھنے کے لئے خاص طور پر تشریف لائے، اس کا انتظام چیف آرگنائزرز چوہدری عارف، میاں شیراز، میاں اسجد، میاں امین کی جانب سے کیا گیا تھا اور اس کی سرپرستی، سرپرست اعلی چوہدری رضوان، استاد چوہدری عامر سعید، چوہدری زیبی اقلال، صدر نعمان مغل، چوہدری عاصم نذیر، چوہدری ارشد بلیال کر رہںے تھے،

مہمان گرامی جب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گراؤنڈ میں پہنچے تو ڈھول کی تھاپ پر ان کا والہانہ استقبال کیا گیا، ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں، انہیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے، ان پر نوٹوں کی بارش کی گئی اور انہیں پنڈال تک پہنچایا گیا،

"شاہ حسین کبڈی کلب چکوال" کی سرپرستی کیپٹن خاور زمان کسر، کوچ استاد محمد ریاض لاجی، اونر سردار اعجاز احمد خان، سرپرست اعلی چوہدری تنویر حیدر مغل نے کی اور "جھاٹلہ کبڈی کلب تلہ گنگ" کی سرپرستی کیپٹن ملک ربعیان جھاٹلہ، کوچ فوجی فدا حسین جھاٹلہ، اونر ملک وسیم جھاٹلہ، سرپرست اعلی ملک سلمان جھاٹلہ کر رہںے تھے،

آج کا یہ کبڈی میچ ایک دلچسپ مقابلے کے بعد "جھاٹلہ کبڈی کلب تلہ گنگ" نے "شاہ حسین کبڈی کلب چکوال" کو 31 اکتیس پوائنٹس کے مقابلے میں 40 چالیس پوائنٹس سے شکست دے کر جیت لیا، اس کبڈی میچ میں ریفری کے فرائض چوہدری تنویر حیدر مغل نے سرانجام دیںے، آل پاکستان اناؤنسر ملک مقصود اعوان لشکریال نے اپنے خوبصورت انداز میں کمنٹری کی اور ہزاروں کی تعداد میں شائقین کبڈی نے اس میچ کو دیکھا اور اچھا کھیلنے والے کھلاڑیوں کی خوب حوصلہ افزائی کی، 

اس بڑے کبڈی میچ سے پہلے ایک چھوٹا ٹاکرا "پتالیاں کبڈی کلب" اور "نیلہ کبڈی کلب" کے درمیان ہںوا جو "نیلہ کبڈی کلب" نے 15 پندرہ پوائنٹس کے مقابلے میں 30 تیس پوائنٹس سے شکست دے کر جیت لیا،

کبڈی میچز کے اختتام پر مہمانان گرامی نے کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کیے رنر اپ اور ونر اپ کبڈی ٹیمز کو ٹرافیز اور اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو ٹرافیز اور نقد انعامات دیںے گئے، مین آف دی میچ ایوارڈ جاپھی شہاب الدین اور ساہںی صادق لیٹی کو دیا گیا، چئیرمین عقیل احمد جاڑہ نے انتظامیہ کو تیس ہزار روپے نقد انعام دیا اور کبڈی میچز کے انعقاد پرمبارک باد پیش کی، اس خوبصورت تقریب تقسیم انعامات کے موقع پر کبڈی کے کئی سینئر کھلاڑی بھی موجود تھے،

 

آخر میں ہم زبردست اور شاندار کبڈی میچز منعقد کروانے پر ان کبڈی میچز کے آرگنائزرز چوہدری عارف، میاں شیراز، میاں اسجد، میاں امین، اہلیان  نیلہ اور انتظامیہ کی پوری ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور آج کے یہ کبڈی میچز جیتنے پر "جھاٹلہ کبڈی کلب تلہ گنگ" اور "نیلہ کبڈی کلب چکوال" ان کبڈی ٹییمز کے تمام کھلاڑیوں کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔