نیلہ سکول ایک تاریخی ادارہ ہے۔ اس کی بنیاد 1947 سے پہلے ایک سکھ شخصیت، سردار موتا سنگھ بھاسن نے رکھی، جو تعلیم کی روشنی گاؤں کے ہر بچے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اُس وقت یہ ادارہ محبت، خدمت اور امن کی علامت تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سکول اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا اور آج تک نیلہ اور آس پاس کے دیہات کے بچوں کے لئے تعلیم کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج، 2025 میں بھی یہ سکول صرف دسویں جماعت تک محدود ہے۔ یہ سوال ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر کیوں؟
🔹 ہماری کمزوریاں
ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات میں تعلیم کو وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ سکول کی عمارت اور عملہ تو موجود رہا، لیکن وسائل بڑھانے اور سہولتیں فراہم کرنے میں ہماری رفتار سست رہی۔
🔹 سیاسی کمزوریاں
ہمارے علاقے کی سیاست زیادہ تر وقتی فائدوں، ذاتی تعلقات اور پارٹی وابستگیوں کے گرد گھومتی رہی۔ تعلیم جیسے بنیادی اور دیرپا کام پر وہ توجہ نہ دی گئی جو ہونی چاہیے تھی۔ نیلہ سکول کے توسیعی منصوبے، کالج کی سطح تک اپگریڈ کرنے یا بہتر عملہ فراہم کرنے کے اقدامات وقت پر نہ ہو سکے۔
🔹 اتحاد کی کمی
ہم نے ایک کمیونٹی کے طور پر مل کر آواز نہیں اٹھائی۔ اگر گاؤں والے، والدین، سابق طلبہ اور مقامی نمائندے ایک ساتھ ہو کر مستقل مہم چلاتے تو آج یہ سکول شاید انٹر یا ڈگری سطح تک ہوتا۔
🔹 نتیجہ
نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بچے دسویں جماعت کے بعد دور دراز کے سکولوں یا کالجوں میں جانے پر مجبور ہیں، جس سے نہ صرف اُن پر بلکہ اُن کے والدین پر بھی مالی و ذہنی بوجھ پڑتا ہے۔
🔹 آگے کا راستہ
یہ مایوسی کا مقام نہیں بلکہ سوچنے اور بدلنے کا لمحہ ہے۔ اگر آج ہم متحد ہو جائیں، سیاسی دباؤ ڈالیں، مقامی مخیر حضرات کو شامل کریں، اور حکومت کے اداروں کو مسلسل یاددہانی کروائیں، تو یہ سکول انٹر یا ڈگری لیول تک بڑھ سکتا ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو ہمیں سردار موتا سنگھ بھاسن اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کرنے کیلئے ادا کرنا ہے۔
🌸 نیلہ سکول صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کا دروازہ ہے۔ اسے آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
---
نیلہ سکول – خواب، حقیقت اور ہماری ذمہ داریاں
نیلہ سکول ایک تاریخی ادارہ ہے۔ اس کی بنیاد 1947 سے پہلے ایک سکھ شخصیت، سردار موتا سنگھ بھاسن نے رکھی، جو تعلیم کی روشنی گاؤں کے ہر بچے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اُس وقت یہ ادارہ محبت، خدمت اور امن کی علامت تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سکول اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا اور آج تک نیلہ اور آس پاس کے دیہات کے بچوں کے لئے تعلیم کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج، 2025 میں بھی یہ سکول صرف دسویں جماعت تک محدود ہے۔ یہ سوال ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر کیوں؟
🔹 ہماری کمزوریاں
ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات میں تعلیم کو وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ سکول کی عمارت اور عملہ تو موجود رہا، لیکن وسائل بڑھانے اور سہولتیں فراہم کرنے میں ہماری رفتار سست رہی۔
🔹 سیاسی کمزوریاں
ہمارے علاقے کی سیاست زیادہ تر وقتی فائدوں، ذاتی تعلقات اور پارٹی وابستگیوں کے گرد گھومتی رہی۔ تعلیم جیسے بنیادی اور دیرپا کام پر وہ توجہ نہ دی گئی جو ہونی چاہیے تھی۔ نیلہ سکول کے توسیعی منصوبے، کالج کی سطح تک اپگریڈ کرنے یا بہتر عملہ فراہم کرنے کے اقدامات وقت پر نہ ہو سکے۔
🔹 اتحاد کی کمی
ہم نے ایک کمیونٹی کے طور پر مل کر آواز نہیں اٹھائی۔ اگر گاؤں والے، والدین، سابق طلبہ اور مقامی نمائندے ایک ساتھ ہو کر مستقل مہم چلاتے تو آج یہ سکول شاید انٹر یا ڈگری سطح تک ہوتا۔
🔹 نتیجہ
نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بچے دسویں جماعت کے بعد دور دراز کے سکولوں یا کالجوں میں جانے پر مجبور ہیں، جس سے نہ صرف اُن پر بلکہ اُن کے والدین پر بھی مالی و ذہنی بوجھ پڑتا ہے۔
🔹 آگے کا راستہ
یہ مایوسی کا مقام نہیں بلکہ سوچنے اور بدلنے کا لمحہ ہے۔ اگر آج ہم متحد ہو جائیں، سیاسی دباؤ ڈالیں، مقامی مخیر حضرات کو شامل کریں، اور حکومت کے اداروں کو مسلسل یاددہانی کروائیں، تو یہ سکول انٹر یا ڈگری لیول تک بڑھ سکتا ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو ہمیں سردار موتا سنگھ بھاسن اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کرنے کیلئے ادا کرنا ہے۔
🌸 نیلہ سکول صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کا دروازہ ہے۔ اسے آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
---
No comments:
Post a Comment