Monday, 29 September 2025

Neela school

موتا سنگھ ماڈل اسکول – نیلہ پاکستان کی روایت کا تسلسل

یہ اسکول دراصل اس عظیم روایت کو آگے بڑھا رہا ہے جو سردار موتا سنگھ جی نے 1916ء میں پاکستان کے گاؤں نیلہ میں قائم کی تھی۔ اس وقت نیلہ میں “S.S. موتا سنگھ خالصہ ہائر سیکنڈری اسکول” نے خدمت، عزم اور تعلیم سے محبت کی ایسی مثال قائم کی کہ معاشی طور پر کمزور طلبہ کو مفت کتابیں، اسٹیشنری اور دیگر ضروریات مہیا کی جاتی تھیں۔ 1916ء سے 1947ء تک اس اسکول کی خدمت لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی۔

قیامِ پاکستان کے بعد اس خواب کو دہلی میں دوبارہ زندہ کرنے کے لیے S.S. Mota Singh (Nila) Charitable Trust دسمبر 1975ء میں رجسٹر ہوا۔ اس کے بعد 1976ء میں نرنگ کالونی دہلی میں “S.S. Mota Singh Model School” کا آغاز ہوا اور 1981ء میں اسے جنک پوری کے عظیم الشان کیمپس میں منتقل کر دیا گیا۔ آج یہ ادارہ جدید سہولتوں، وسیع کھیل کے میدان اور معیاری تدریسی عملے کے ساتھ ایک شاندار درسگاہ ہے۔

یہ ادارہ نہ صرف اعلیٰ تعلیمی معیار پیش کرتا ہے بلکہ طلبہ میں ایمانداری، خود اعتمادی، سچائی اور خدمت کے جذبے کو پروان چڑھاتا ہے۔ 1982ء سے ہر سال “S.S. Mota Singh Memorial Hockey Tournament” منعقد کیا جاتا ہے، جو دہلی کے ممتاز اسکولوں کے لیے ایک بڑا کھیلوں کا ایونٹ بن چکا ہے۔

آج اس اسکول کی مختلف شاخیں دہلی میں علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں اور سردار موتا سنگھ جی کے خواب کو حقیقت میں بدل رہی ہیں۔ یہ ادارہ اس بات کی روشن مثال ہے کہ تعلیم، خدمت اور کردار سازی مل کر کس طرح ایک کامیاب نسل تیار کرتے ہیں۔ 🌟
https://www.ssmsschool.com/

Capt Muhammad Sadiq shahed Neela 💗

🌟🇵🇰 کیپٹن محمد صادق شہید – نیلہ کی پہچان 🇵🇰🌟

آج 26 ستمبر ہے۔ 21 ستمبر 1965 کو کیپٹن محمد صادق شہید وطنِ عزیز پر جان نچھاور کر کے امر ہو گئے۔ ہم اس موقع پر اُن کی بہادری، قربانی اور خدمات کو یاد کرتے ہیں اور سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔

کیپٹن محمد صادق شہید نیلہ کے مشہور سپوت ہی نہیں تھے بلکہ ہماری مقامی شخصیات سے بھی اُن کا قریبی تعلق تھا۔ وہ چیئرمین خالد سلیم کے سگے ماموں تھے یعنی چیئرمین خالد سلیم کی والدہ، کیپٹن صادق شہید کی سگی بہن تھیں۔ شہید کی والدہ محترمہ کا نام میرانی بی بی تھا اور اُن کے والد محترم سیٹھ جہانداد مرحوم تھے۔ بائیں جانب کی تصویر میں کیپٹن صادق شہید ہیں اور دائیں طرف اُن کی والدہ محترمہ نظر آتی ہیں۔

کیپٹن محمد صادق شہید (ستارۂ جرات) پاکستان آرمی کے وہ جوان تھے جنہوں نے بہادری، پیشہ ورانہ مہارت اور حب الوطنی کی لازوال مثال قائم کی۔ اُن کا تعلق ایک محبِ وطن خاندان سے تھا، اسی جذبے نے اُنہیں فوج میں شمولیت پر اُبھارا اور 19 اکتوبر 1958 کو کمیشن حاصل کیا۔ سن 1965 کی جنگ میں رن آف کچھ سے لے کر کشمیر اور سیالکوٹ کے محاذ تک، گولہ باری اور ٹینک حملوں کے طوفان میں بھی وہ ڈٹے رہے۔ شدید مزاحمت اور مشکل ترین حالات کے باوجود دشمن کے پاور ہاؤس پر قبضہ کرنے اور اپنے ساتھیوں کی حفاظت کا مشکل ترین مشن کامیابی سے مکمل کیا اور واپس یونٹ لوٹے۔

20 ستمبر کو زفر وال سیکٹر میں کمانڈر کی حیثیت سے جب پانچ دن اور پانچ راتیں مسلسل دشمن کے گولہ باری اور ٹینک حملوں کا سامنا تھا تو وہ ہمت و استقلال کی علامت بن کر ہر محاذ پر اپنے جوانوں کے ساتھ موجود رہے۔ دشمن کے تین اطراف سے گھیرے کے باوجود آگے بڑھ کر قیادت کی اور سیالکوٹ کے دفاع کو منظم رکھا۔ آخرکار 21 ستمبر 1965 کو وہ دشمن کی فائرنگ کی زد میں آ کر شہید ہو گئے۔ اُن کی میت 23 ستمبر کو ایک کھیت سے ملی۔

6 ستمبر 1966 کو صدر پاکستان جنرل ایوب خان نے اُن کی شجاعت، پیشہ ورانہ مہارت اور فرض شناسی کے اعتراف میں اُنہیں ستارۂ جرات سے نوازا۔
یہ اعزاز شہید کی والدہ محترمہ میرانی بی بی نے اپنے بیٹے کی شہادت کے بعد حاصل کیا، اور بیٹے کے اعزاز کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پورے گاؤں اور خاندان کے لیے فخر کا باعث بنیں۔ یہ منظر خود حب الوطنی، ماں کے صبر اور قربانی کی عظیم مثال ہے۔
آج بھی نیلہ گاؤں میں کیپٹن محمد صادق شہید کی وہ زمین جو انہوں نے وقف کی تھی، نمازِ جنازہ کی جگہ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے، جہاں پورے گاؤں کے جنازے ادا کیے جاتے ہیں۔ یہ اُن کی قوم و ملت سے محبت اور خدمت کا ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے جو آج بھی جاری ہے۔

اُن کے خاندان کا فوجی سلسلہ آج بھی قائم ہے اور اس خاندان کے نوجوان افسران آج بھی پاکستان آرمی میں حاضر سروس ہیں اور وطن کی حفاظت کی ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قربانی اور خدمت کا جذبہ اس خاندان میں نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔

افسوس یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل کے بہت سے لوگوں کو کیپٹن محمد صادق شہید کے بارے میں معلوم ہی نہیں۔ یہ ہماری نیلہ کی ایک اہم پہچان ہیں، ایک ایسی شناخت جسے ہم بھولتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ پورا ضلع چکوال ہی شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین ہے، لیکن ایسے لوگ ہماری اصل پہچان ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کو یاد رکھیں اور نئی نسل کو بتائیں کہ ہمارے گاؤں میں ایسے بھی عظیم لوگ تھے جنہوں نے وطن پر جان نچھاور کر کے شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔

آج ہم نہ صرف اُنہیں یاد کر رہے ہیں بلکہ اُن کے لیے دعا بھی کرتے ہیں:

> اے اللہ! کیپٹن محمد صادق شہید کے درجات بلند فرما، اُن کے خون کو ہماری قوم کے لیے برکت بنا، ہمیں بھی وطن کی خدمت اور قربانی کے لیے اسی اخلاص اور حوصلے سے نواز جو تُو نے اپنے ان عظیم سپوتوں کو دیا۔



یہ شہداء ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اُن کے لہو نے ہمیں آزادی اور وقار کا سایہ دیا۔ آج اگر ہم سکون سے سانس لے رہے ہیں تو یہ اُن جوانوں کی قربانیوں کا صدقہ ہے جو وطن کے لیے جانیں نچھاور کر گئے۔

"یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نگران اس کے"

آئیے ہم سب مل کر ان عظیم بیٹوں کو یاد رکھیں، ان کے مشن کو زندہ رکھیں، اپنے نوجوانوں کے دلوں میں حب الوطنی اور قربانی کا جذبہ تازہ کریں۔

🌹 سلامِ عقیدت کیپٹن محمد صادق شہید کو 🌹
🌹 سلامِ محبت تمام شہدائے پاکستان کو 🌹

#کیپٹن_محمد_صادق_شہید #ستارہ_جرات #پاکستان_آرمی #نیلہ_چکوال
https://www.facebook.com/share/p/1BzrMdFCtm/https://www.facebook.com/share/p/1BzrMdFCtm/

Monday, 22 September 2025

Neela Village of chakwal

Neela Village – A Hidden Gem in Punjab, Pakistan

Introduction

Neela is a historically rich and culturally vibrant village located in Punjab, Pakistan. Surrounded by green fields and hills, Neela carries a legacy of heritage, natural beauty, and stories passed down through generations. Despite being a small rural community, Neela Village is known for its unique landmarks, traditions, and warm-hearted people.

Location & Connectivity

Neela is situated near the Neela Interchange, connecting it to major highways and cities of Punjab. While transport is available 24/7 from the interchange, Neela Village itself still lacks direct public transport to big cities like Rawalpindi and Lahore — a long-standing issue for residents.

History & Heritage

Neela Village holds several important historical and cultural landmarks:

An unfinished temple from the 1947 partition era, left incomplete when the Sikh community migrated to India.

The legendary graves of Shirin and Farhad, which give Neela a romantic and historic identity.

A scenic hill under which the Sawan River flows, making it one of the most picturesque spots in the area.


Culture & Sports

In the past, Neela Village was famous for traditional events such as kabaddi matches and bull races. Today, these cultural activities have almost disappeared, though occasional cricket tournaments and small kabaddi matches still take place on special occasions like Eid.

Infrastructure & Issues

One of the major challenges in Neela Village today is the poor condition of its streets due to underground gas pipelines, which urgently need proper maintenance and repair.

Geography & Nature

A stream of the Sawan River flows beside Neela Village, sometimes overflowing during heavy rains. The surrounding hills, fields, and natural scenery make Neela a perfect spot for nature lovers and photographers.

Education

Neela Village has one of the oldest schools in the region, which has produced generations of educated youth despite limited facilities and political support.

Conclusion

Neela Village is not just a rural settlement — it is a living story of history, culture, and resilience. Its heritage landmarks, natural beauty, and community spirit make it stand out among villages of Punjab. With proper attention and development, Neela has the potential to become a model village for future generation.
Ubaid Neela

🌟 نیلہ کے قابلِ فخر شخصیت – خالد سلیم صاحب 🌟 نیلہ کے معروف سماجی رہنما جناب خالد سلیم صاحب، جنہیں ’’صدا بہار چیئرمین‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کئی سالوں تک سیاست اور عوامی خدمت سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کی دردمندی، خدمتِ خلق اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی انہیں نیلہ کا ہر دل عزیز بناتی ہے۔ 🌸 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت، تندرستی اور طویل عمر عطا فرمائے، تاکہ وہ اسی طرح اپنی خدمات سے گاؤں کے نوجوانوں کے لیے روشن مثال بنتے رہیں اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ ❤️ نیلہ کے نوجوانوں کے لیے خالد سلیم صاحب ایک زندہ مثال ہیں، جو ثابت کرتی ہے کہ محنت، خدمت اور دیانت سے معاشرہ بدل سکتا ہے۔ 🤝 آپ میں سے کتنے لوگ خالد سلیم صاحب کو ذاتی طور پر جانتے ہیں یا ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں؟ کمنٹس میں ضرور بتائیں اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کریں۔


🌟 نیلہ کے قابلِ فخر شخصیت – خالد سلیم صاحب 🌟

نیلہ کے معروف سماجی رہنما جناب خالد سلیم صاحب، جنہیں ’’صدا بہار چیئرمین‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کئی سالوں تک سیاست اور عوامی خدمت سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کی دردمندی، خدمتِ خلق اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی انہیں نیلہ کا ہر دل عزیز بناتی ہے۔

🌸 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت، تندرستی اور طویل عمر عطا فرمائے، تاکہ وہ اسی طرح اپنی خدمات سے گاؤں کے نوجوانوں کے لیے روشن مثال بنتے رہیں اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔

❤️ نیلہ کے نوجوانوں کے لیے خالد سلیم صاحب ایک زندہ مثال ہیں، جو ثابت کرتی ہے کہ محنت، خدمت اور دیانت سے معاشرہ بدل سکتا ہے۔

🤝 آپ میں سے کتنے لوگ خالد سلیم صاحب کو ذاتی طور پر جانتے ہیں یا ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں؟ کمنٹس میں ضرور بتائیں اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کریں۔

نیلہ سکول – خواب، حقیقت اور ہماری ذمہ داریاں نیلہ سکول ایک تاریخی ادارہ ہے۔ اس کی بنیاد 1947 سے پہلے ایک سکھ شخصیت، سردار موتا سنگھ بھاسن نے رکھی، جو تعلیم کی روشنی گاؤں کے ہر بچے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اُس وقت یہ ادارہ محبت، خدمت اور امن کی علامت تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سکول اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا اور آج تک نیلہ اور آس پاس کے دیہات کے بچوں کے لئے تعلیم کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج، 2025 میں بھی یہ سکول صرف دسویں جماعت تک محدود ہے۔ یہ سوال ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر کیوں؟ 🔹 ہماری کمزوریاں ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات میں تعلیم کو وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ سکول کی عمارت اور عملہ تو موجود رہا، لیکن وسائل بڑھانے اور سہولتیں فراہم کرنے میں ہماری رفتار سست رہی۔ 🔹 سیاسی کمزوریاں ہمارے علاقے کی سیاست زیادہ تر وقتی فائدوں، ذاتی تعلقات اور پارٹی وابستگیوں کے گرد گھومتی رہی۔ تعلیم جیسے بنیادی اور دیرپا کام پر وہ توجہ نہ دی گئی جو ہونی چاہیے تھی۔ نیلہ سکول کے توسیعی منصوبے، کالج کی سطح تک اپگریڈ کرنے یا بہتر عملہ فراہم کرنے کے اقدامات وقت پر نہ ہو سکے۔ 🔹 اتحاد کی کمی ہم نے ایک کمیونٹی کے طور پر مل کر آواز نہیں اٹھائی۔ اگر گاؤں والے، والدین، سابق طلبہ اور مقامی نمائندے ایک ساتھ ہو کر مستقل مہم چلاتے تو آج یہ سکول شاید انٹر یا ڈگری سطح تک ہوتا۔ 🔹 نتیجہ نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بچے دسویں جماعت کے بعد دور دراز کے سکولوں یا کالجوں میں جانے پر مجبور ہیں، جس سے نہ صرف اُن پر بلکہ اُن کے والدین پر بھی مالی و ذہنی بوجھ پڑتا ہے۔ 🔹 آگے کا راستہ یہ مایوسی کا مقام نہیں بلکہ سوچنے اور بدلنے کا لمحہ ہے۔ اگر آج ہم متحد ہو جائیں، سیاسی دباؤ ڈالیں، مقامی مخیر حضرات کو شامل کریں، اور حکومت کے اداروں کو مسلسل یاددہانی کروائیں، تو یہ سکول انٹر یا ڈگری لیول تک بڑھ سکتا ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو ہمیں سردار موتا سنگھ بھاسن اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کرنے کیلئے ادا کرنا ہے۔ 🌸 نیلہ سکول صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کا دروازہ ہے۔ اسے آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ---

نیلہ سکول – خواب، حقیقت اور ہماری ذمہ داریاں

نیلہ سکول ایک تاریخی ادارہ ہے۔ اس کی بنیاد 1947 سے پہلے ایک سکھ شخصیت، سردار موتا سنگھ بھاسن نے رکھی، جو تعلیم کی روشنی گاؤں کے ہر بچے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اُس وقت یہ ادارہ محبت، خدمت اور امن کی علامت تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سکول اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا اور آج تک نیلہ اور آس پاس کے دیہات کے بچوں کے لئے تعلیم کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج، 2025 میں بھی یہ سکول صرف دسویں جماعت تک محدود ہے۔ یہ سوال ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر کیوں؟

🔹 ہماری کمزوریاں

ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات میں تعلیم کو وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ سکول کی عمارت اور عملہ تو موجود رہا، لیکن وسائل بڑھانے اور سہولتیں فراہم کرنے میں ہماری رفتار سست رہی۔

🔹 سیاسی کمزوریاں

ہمارے علاقے کی سیاست زیادہ تر وقتی فائدوں، ذاتی تعلقات اور پارٹی وابستگیوں کے گرد گھومتی رہی۔ تعلیم جیسے بنیادی اور دیرپا کام پر وہ توجہ نہ دی گئی جو ہونی چاہیے تھی۔ نیلہ سکول کے توسیعی منصوبے، کالج کی سطح تک اپگریڈ کرنے یا بہتر عملہ فراہم کرنے کے اقدامات وقت پر نہ ہو سکے۔

🔹 اتحاد کی کمی

ہم نے ایک کمیونٹی کے طور پر مل کر آواز نہیں اٹھائی۔ اگر گاؤں والے، والدین، سابق طلبہ اور مقامی نمائندے ایک ساتھ ہو کر مستقل مہم چلاتے تو آج یہ سکول شاید انٹر یا ڈگری سطح تک ہوتا۔

🔹 نتیجہ

نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بچے دسویں جماعت کے بعد دور دراز کے سکولوں یا کالجوں میں جانے پر مجبور ہیں، جس سے نہ صرف اُن پر بلکہ اُن کے والدین پر بھی مالی و ذہنی بوجھ پڑتا ہے۔

🔹 آگے کا راستہ

یہ مایوسی کا مقام نہیں بلکہ سوچنے اور بدلنے کا لمحہ ہے۔ اگر آج ہم متحد ہو جائیں، سیاسی دباؤ ڈالیں، مقامی مخیر حضرات کو شامل کریں، اور حکومت کے اداروں کو مسلسل یاددہانی کروائیں، تو یہ سکول انٹر یا ڈگری لیول تک بڑھ سکتا ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو ہمیں سردار موتا سنگھ بھاسن اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کرنے کیلئے ادا کرنا ہے۔

🌸 نیلہ سکول صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کا دروازہ ہے۔ اسے آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔


---
نیلہ سکول – خواب، حقیقت اور ہماری ذمہ داریاں

نیلہ سکول ایک تاریخی ادارہ ہے۔ اس کی بنیاد 1947 سے پہلے ایک سکھ شخصیت، سردار موتا سنگھ بھاسن نے رکھی، جو تعلیم کی روشنی گاؤں کے ہر بچے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اُس وقت یہ ادارہ محبت، خدمت اور امن کی علامت تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سکول اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا اور آج تک نیلہ اور آس پاس کے دیہات کے بچوں کے لئے تعلیم کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج، 2025 میں بھی یہ سکول صرف دسویں جماعت تک محدود ہے۔ یہ سوال ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر کیوں؟

🔹 ہماری کمزوریاں

ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات میں تعلیم کو وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ سکول کی عمارت اور عملہ تو موجود رہا، لیکن وسائل بڑھانے اور سہولتیں فراہم کرنے میں ہماری رفتار سست رہی۔

🔹 سیاسی کمزوریاں

ہمارے علاقے کی سیاست زیادہ تر وقتی فائدوں، ذاتی تعلقات اور پارٹی وابستگیوں کے گرد گھومتی رہی۔ تعلیم جیسے بنیادی اور دیرپا کام پر وہ توجہ نہ دی گئی جو ہونی چاہیے تھی۔ نیلہ سکول کے توسیعی منصوبے، کالج کی سطح تک اپگریڈ کرنے یا بہتر عملہ فراہم کرنے کے اقدامات وقت پر نہ ہو سکے۔

🔹 اتحاد کی کمی

ہم نے ایک کمیونٹی کے طور پر مل کر آواز نہیں اٹھائی۔ اگر گاؤں والے، والدین، سابق طلبہ اور مقامی نمائندے ایک ساتھ ہو کر مستقل مہم چلاتے تو آج یہ سکول شاید انٹر یا ڈگری سطح تک ہوتا۔

🔹 نتیجہ

نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بچے دسویں جماعت کے بعد دور دراز کے سکولوں یا کالجوں میں جانے پر مجبور ہیں، جس سے نہ صرف اُن پر بلکہ اُن کے والدین پر بھی مالی و ذہنی بوجھ پڑتا ہے۔

🔹 آگے کا راستہ

یہ مایوسی کا مقام نہیں بلکہ سوچنے اور بدلنے کا لمحہ ہے۔ اگر آج ہم متحد ہو جائیں، سیاسی دباؤ ڈالیں، مقامی مخیر حضرات کو شامل کریں، اور حکومت کے اداروں کو مسلسل یاددہانی کروائیں، تو یہ سکول انٹر یا ڈگری لیول تک بڑھ سکتا ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو ہمیں سردار موتا سنگھ بھاسن اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کرنے کیلئے ادا کرنا ہے۔

🌸 نیلہ سکول صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کا دروازہ ہے۔ اسے آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔


---

Saturday, 2 August 2025

نیلہ گاؤں کی سرزمین ہمیشہ ایسے عظیم لوگوں کو جنم دیتی ہے جنہوں نے علم کی روشنی پھیلائی اور نسلوں کی تقدیر بدلی۔ انہی باوقار ہستیوں میں ایک نمایاں نام سر احمد خان صاحب کا ہے۔ آپ 1953 کو پیدا ہوئے آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول نیلہ میں طویل عرصے تک تدریسی خدمات انجام دیں اور ایک وقت میں ہیڈ ماسٹر کے طور پر بھی اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔ غالباً 2013 میں آپ ریٹائر ہوئے، مگر تعلیم سے محبت کا سفر یہیں نہیں رکا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے نیلہ میں واحد گرلز کالج کی بنیاد رکھی اور اس کے انتظامات سنبھالے۔ آج بھی آپ کی سربراہی میں نیلہ میں واقع "کونسیپٹ سکول" (Concept School)، جو کہ ربانیہ مسجد کے قریب ہے، کامیابی سے چل رہا ہے۔ سر احمد خان صاحب کا اندازِ تدریس نہایت دلچسپ، معنی خیز اور مؤثر تھا۔ خاص طور پر انگریزی اور عربی کے تراجم کے ساتھ پڑھانا ان کی پہچان بن چکی تھی، جس سے طالب علموں کو گہرائی سے علم حاصل ہوتا تھا۔ آپ کی محنت، محبت اور خلوص کی بدولت نہ صرف نیلہ بلکہ آس پاس کے مضافاتی علاقوں سے بھی طلباء نیلہ سکول کا رخ کرتے تھے — صرف اس لیے کہ یہاں احساس رکھنے والا ایک عظیم استاد موجود تھا۔ یہ حقیقت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نیلہ سکول ایک وقت میں پورے علاقے کا واحد بااعتماد تعلیمی ادارہ تھا، جہاں سے سینکڑوں بچوں نے کامیابی کی منزلیں طے کیں۔ آج بھی یہاں کا تعلیمی معیار شاندار ہے — آپ جیسے اساتذہ کی بدولت۔ --- 💬 کیا آپ نے بھی سر احمد خان صاحب سے پڑھا ہے؟ ان کا کوئی جملہ، نصیحت یا اندازِ تدریس یاد ہے؟ کمنٹ میں اپنی یاد ضرور شیئر کریں۔ آپ کا ایک جملہ، ان کے لیے سب سے خوبصورت خراجِ تحسین ہو سکتا ہے۔ 🙏 اگر آپ بھی سر احمد خان صاحب کو سلام پیش کرنا چاہتے ہیں، تو کمنٹ میں دعا، محبت یا یاد کا کوئی خوبصورت لفظ ضرور لکھیں۔ اللہ سر احمد خان کو لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔ یا دعا ہے کہ سر احمد خان ہمیشہ سلامت رہیں اور عمر دراز پائیں Ubaid Neela Neela Chakwal نیلہ چکوال Neelay Alay Neela Chakwal

نیلہ گاؤں کی سرزمین ہمیشہ ایسے عظیم لوگوں کو جنم دیتی ہے جنہوں نے علم کی روشنی پھیلائی اور نسلوں کی تقدیر بدلی۔ انہی باوقار ہستیوں میں ایک نمایاں نام سر احمد خان صاحب 
کا ہے۔
آپ 1953 کو پیدا ہوئے 

آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول نیلہ میں طویل عرصے تک تدریسی خدمات انجام دیں اور ایک وقت میں ہیڈ ماسٹر کے طور پر بھی اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔
غالباً 2013 میں آپ ریٹائر ہوئے، مگر تعلیم سے محبت کا سفر یہیں نہیں رکا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے نیلہ میں واحد گرلز کالج کی بنیاد رکھی اور اس کے انتظامات سنبھالے۔
آج بھی آپ کی سربراہی میں نیلہ میں واقع "کونسیپٹ سکول" (Concept School)، جو کہ ربانیہ مسجد کے قریب ہے، کامیابی سے چل رہا ہے۔

سر احمد خان صاحب کا اندازِ تدریس نہایت دلچسپ، معنی خیز اور مؤثر تھا۔
خاص طور پر انگریزی اور عربی کے تراجم کے ساتھ پڑھانا ان کی پہچان بن چکی تھی، جس سے طالب علموں کو گہرائی سے علم حاصل ہوتا تھا۔

آپ کی محنت، محبت اور خلوص کی بدولت نہ صرف نیلہ بلکہ آس پاس کے مضافاتی علاقوں سے بھی طلباء نیلہ سکول کا رخ کرتے تھے — صرف اس لیے کہ یہاں احساس رکھنے والا ایک عظیم استاد موجود تھا۔

یہ حقیقت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نیلہ سکول ایک وقت میں پورے علاقے کا واحد بااعتماد تعلیمی ادارہ تھا، جہاں سے سینکڑوں بچوں نے کامیابی کی منزلیں طے کیں۔
آج بھی یہاں کا تعلیمی معیار شاندار ہے — آپ جیسے اساتذہ کی بدولت۔

---

💬 کیا آپ نے بھی سر احمد خان صاحب سے پڑھا ہے؟
ان کا کوئی جملہ، نصیحت یا اندازِ تدریس یاد ہے؟
کمنٹ میں اپنی یاد ضرور شیئر کریں۔
آپ کا ایک جملہ، ان کے لیے سب سے خوبصورت خراجِ تحسین ہو سکتا ہے۔

🙏 اگر آپ بھی سر احمد خان صاحب کو سلام پیش کرنا چاہتے ہیں، تو کمنٹ میں دعا، محبت یا یاد کا کوئی خوبصورت لفظ ضرور لکھیں۔
اللہ سر احمد خان کو لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔
یا
دعا ہے کہ سر احمد خان ہمیشہ سلامت رہیں اور عمر دراز پائیں

Ubaid Neela 
Neela Chakwal نیلہ چکوال 
Neelay Alay Neela Chakwal


Sunday, 13 July 2025

🟥 نیلا کی عوام سے ایک عوامی اپیل: جاگ جاؤ، ورنہ سب کچھ ختم ہو جائے گا! ہم نیلا کے لوگ ہیں… ہم نیلا کے باسی ہیں… ہم اس مٹی کے وارث ہیں جسے ہم نے خود نظر انداز کر دیا۔ آج اگر ہم شام کو چوک میں کھڑے ہوں تو ہر طرف اجنبی چہرے، رنگ برنگے لوگ، نامعلوم چالیں اور سوالیہ نظریں نظر آتی ہیں۔ پوچھنے پر پتا چلتا ہے: > "ہم فلاں ڈیرے پر کام کرتے ہیں۔" لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ کون لوگ ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ اور کس مقصد سے یہاں موجود ہیں؟ ہمارے کھیت اجنبیوں کے حوالے کر دیے گئے… اور ہم خود اپنے گاؤں میں اجنبی بنتے جا رہے ہیں۔ --- 🔴 ہم نے اپنا سب کچھ خود برباد کیا! ہمارا تھانہ نیلا جو انگریز دور کی شناخت تھا، ہم سے چھن گیا کالج، اسکول، گیس، پل سب وعدوں میں دفن ہو گئے ہماری قیادتیں صرف وڈیروں سے تصویریں بنوانے اور گورنروں سے مصافحے پر خوش ہیں عوام کو صرف یہ بتانے کی ضرورت سمجھی گئی کہ > "ہم فلاں ایم پی اے کے ساتھ بیٹھے تھے" "ہم فلاں جنازے پر گئے تھے" "ہم نے فلاں ولیمے میں شرکت کی تھی" اور ہم، عوام، اسی پر فخر کرتے رہے! --- 🟠 ہم اتنے بٹ چکے ہیں کہ جنازے اور فاتحہ خوانیاں بھی الگ ہو گئیں سیاسی نفرت… سیاسی ضد… مذہبی اختلاف… یہ سب ہمیں اس نہج پر لے آئے ہیں کہ اب ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں۔ اگر کوئی ایک سیاسی ترقیاتی کام کروانا چاہتا ہے تو دوسرا فوراً ٹانگ اڑا دیتا ہے۔ بس اس خوف سے کہ: > "اگر اس نے کام کروا لیا تو ہمارے ووٹ بند ہو جائیں گے!" یہی وجہ ہے کہ ماڈل ولیج بھی نہ بن سکا، پل بھی نہ بنا، گیس بھی نہ پہنچی، اور ہم صرف وعدوں میں زندہ رہے۔ --- 🟢 اب بھی وقت ہے — ہم اکٹھے ہو سکتے ہیں اگر چند باشعور لوگ ایک پیج پر آ جائیں اگر نیلا کے عوام مذہب، برادری، سیاست سے نکل کر صرف علاقائی مفاد کو ترجیح دیں اگر سیاسی قیادتیں ذاتی نہیں، عوامی سوچ اختیار کریں تو: ✅ ہم اپنا تھانہ واپس لا سکتے ہیں ✅ ہم اسکول و کالج اپگریڈ کروا سکتے ہیں ✅ ہم گیس کی سکیم مکمل کروا سکتے ہیں ✅ ہم نیلا اور ملک کو ایک ترقی یافتہ، باعزت، محفوظ علاقہ بنا سکتے ہیں --- ⚠️ ورنہ آنے والا وقت صرف اندھیرا ہے اگر اب بھی ہم بکھرے رہے، تو آنے والے وقت میں: ہمارے کھیتوں پر قبضے ہوں گے ہماری عزتیں غیرمحفوظ ہوں گی ہماری نسلیں دوسروں کی ملازمتوں پر مجبور ہوں گی اور ہمارا وجود صرف فوٹو گیلریوں اور پرانی یادوں تک محدود رہ جائے گا --- ✊ ہمیں جاگنا ہوگا — اب نہیں تو کبھی نہیں! ہم عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ: ❌ کیا ہم اب بھی صرف تصویری سیاست پر ووٹ دیں گے؟ ✅ یا ہم اب صرف ترقیاتی کام، سچائی، دیانتداری اور عوامی خدمت پر ووٹ دیں گے؟ اب ہمیں کہنا ہوگا: > "ہم ان کے پیچھے نہیں چلیں گے جنہوں نے سالوں میں صرف تصویریں دی ہیں، ہم اُن کے ساتھ کھڑے ہوں گے جو گاؤں کے لیے کچھ کر کے دکھائیں گے( منجانب یوتھ ونگ نیلا) تحریر عبدالرحمن نیلا --- 🧭 یہ تحریر نہیں، ایک تاریخی پکار ہے: #نیلا_جاگ_رہا_ہے # #ہم_عوام_ہیں_باشعور #اب_ترقی_کے_علاوہ_کوئی_ووٹ_نہیں #سیاسی_اتحاد_نہیں_تو_عوامی_اتحاد_ضرور --

🟥 نیلا کی عوام سے ایک عوامی اپیل: جاگ جاؤ، ورنہ سب کچھ ختم ہو جائے گا!

ہم نیلا کے لوگ ہیں…
ہم نیلا کے باسی ہیں…
ہم اس مٹی کے وارث ہیں جسے ہم نے خود نظر انداز کر دیا۔

آج اگر ہم شام کو چوک میں کھڑے ہوں تو ہر طرف اجنبی چہرے، رنگ برنگے لوگ، نامعلوم چالیں اور سوالیہ نظریں نظر آتی ہیں۔
پوچھنے پر پتا چلتا ہے:

> "ہم فلاں ڈیرے پر کام کرتے ہیں۔"

لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ کون لوگ ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ اور کس مقصد سے یہاں موجود ہیں؟

ہمارے کھیت اجنبیوں کے حوالے کر دیے گئے…
اور ہم خود اپنے گاؤں میں اجنبی بنتے جا رہے ہیں۔

---

🔴 ہم نے اپنا سب کچھ خود برباد کیا!

ہمارا تھانہ نیلا جو انگریز دور کی شناخت تھا، ہم سے چھن گیا

کالج، اسکول، گیس، پل سب وعدوں میں دفن ہو گئے

ہماری قیادتیں صرف وڈیروں سے تصویریں بنوانے اور گورنروں سے مصافحے پر خوش ہیں

عوام کو صرف یہ بتانے کی ضرورت سمجھی گئی کہ

> "ہم فلاں ایم پی اے کے ساتھ بیٹھے تھے"
"ہم فلاں جنازے پر گئے تھے"
"ہم نے فلاں ولیمے میں شرکت کی تھی"

اور ہم، عوام، اسی پر فخر کرتے رہے!

---

🟠 ہم اتنے بٹ چکے ہیں کہ جنازے اور فاتحہ خوانیاں بھی الگ ہو گئیں

سیاسی نفرت…
سیاسی ضد…
مذہبی اختلاف…
یہ سب ہمیں اس نہج پر لے آئے ہیں کہ اب ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں۔

اگر کوئی ایک سیاسی ترقیاتی کام کروانا چاہتا ہے تو دوسرا فوراً ٹانگ اڑا دیتا ہے۔
بس اس خوف سے کہ:

> "اگر اس نے کام کروا لیا تو ہمارے ووٹ بند ہو جائیں گے!"

یہی وجہ ہے کہ ماڈل ولیج بھی نہ بن سکا، پل بھی نہ بنا، گیس بھی نہ پہنچی، اور ہم صرف وعدوں میں زندہ رہے۔

---

🟢 اب بھی وقت ہے — ہم اکٹھے ہو سکتے ہیں

اگر چند باشعور لوگ ایک پیج پر آ جائیں
اگر نیلا کے عوام مذہب، برادری، سیاست سے نکل کر صرف علاقائی مفاد کو ترجیح دیں
اگر سیاسی قیادتیں ذاتی نہیں، عوامی سوچ اختیار کریں

تو:

✅ ہم اپنا تھانہ واپس لا سکتے ہیں
✅ ہم اسکول و کالج اپگریڈ کروا سکتے ہیں
✅ ہم گیس کی سکیم مکمل کروا سکتے ہیں
✅ ہم نیلا اور ملک کو ایک ترقی یافتہ، باعزت، محفوظ علاقہ بنا سکتے ہیں

---

⚠️ ورنہ آنے والا وقت صرف اندھیرا ہے

اگر اب بھی ہم بکھرے رہے،
تو آنے والے وقت میں:

ہمارے کھیتوں پر قبضے ہوں گے

ہماری عزتیں غیرمحفوظ ہوں گی

ہماری نسلیں دوسروں کی ملازمتوں پر مجبور ہوں گی

اور ہمارا وجود صرف فوٹو گیلریوں اور پرانی یادوں تک محدود رہ جائے گا

---

✊ ہمیں جاگنا ہوگا — اب نہیں تو کبھی نہیں!

ہم عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ:

❌ کیا ہم اب بھی صرف تصویری سیاست پر ووٹ دیں گے؟
✅ یا ہم اب صرف ترقیاتی کام، سچائی، دیانتداری اور عوامی خدمت پر ووٹ دیں گے؟

اب ہمیں کہنا ہوگا:

> "ہم ان کے پیچھے نہیں چلیں گے جنہوں نے سالوں میں صرف تصویریں دی ہیں،
ہم اُن کے ساتھ کھڑے ہوں گے جو گاؤں کے لیے کچھ کر کے دکھائیں گے( منجانب یوتھ ونگ نیلا) تحریر عبدالرحمن نیلا

---

🧭 یہ تحریر نہیں، ایک تاریخی پکار ہے:

#نیلا_جاگ_رہا_ہے
#
#ہم_عوام_ہیں_باشعور
#اب_ترقی_کے_علاوہ_کوئی_ووٹ_نہیں
#سیاسی_اتحاد_نہیں_تو_عوامی_اتحاد_ضرور

--

Historical village Neela

Wednesday, 19 February 2025

My Home Land Neela chakwal

بچپن کی یادیں ہمیشہ دل کے قریب ہوتی ہیں، خاص طور پر جب وہ یادیں گاؤں کی ہوں، جہاں فطرت کی معصومیت اور سادگی ہر طرف پھیلی ہوتی تھی۔ گاؤں کا ہر گوشہ، ہر راستہ، اور ہر منظر میری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ وہ گاؤں، جو میرے بچپن کا پیچھا کرتا ہے، میری روح میں گہری چھاپ چھوڑ گیا ہے۔ میرے گاؤں کی فضا ہمیشہ خوشبو سے مہک رہی ہوتی تھی۔ ہر طرف کھیتوں کا سبزہ، درختوں کا سایہ، اور کھلے آسمان کے نیچے وہ خوشگوار ہوا جو شہر کی آلودگی سے بالکل آزاد تھی۔ گاؤں کی زندگی میں کچھ خاص بات تھی، جو شہر میں نہ تھی۔ صبح سویرے جب آٹھتے ہوئے سورج کی کرنیں کھیتوں پر پڑتیں، تو ایک خوبصورت منظر ہوتا۔ پرندوں کی چہچہاٹ، درختوں کی سرسراہٹ اور مٹی کی خوشبو، یہ سب کچھ مجھے کبھی نہیں بھول سکتا۔ Ubaid Neela

Sunday, 1 December 2024

Neela

Explore the enchanting village of Neela Dullah Chakwal, renowned for its rich history, stunning landscapes, and vibrant culture. Discover hidden gems today!

Neela a village in chakwal