Monday, 29 September 2025

Neela school

موتا سنگھ ماڈل اسکول – نیلہ پاکستان کی روایت کا تسلسل

یہ اسکول دراصل اس عظیم روایت کو آگے بڑھا رہا ہے جو سردار موتا سنگھ جی نے 1916ء میں پاکستان کے گاؤں نیلہ میں قائم کی تھی۔ اس وقت نیلہ میں “S.S. موتا سنگھ خالصہ ہائر سیکنڈری اسکول” نے خدمت، عزم اور تعلیم سے محبت کی ایسی مثال قائم کی کہ معاشی طور پر کمزور طلبہ کو مفت کتابیں، اسٹیشنری اور دیگر ضروریات مہیا کی جاتی تھیں۔ 1916ء سے 1947ء تک اس اسکول کی خدمت لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی۔

قیامِ پاکستان کے بعد اس خواب کو دہلی میں دوبارہ زندہ کرنے کے لیے S.S. Mota Singh (Nila) Charitable Trust دسمبر 1975ء میں رجسٹر ہوا۔ اس کے بعد 1976ء میں نرنگ کالونی دہلی میں “S.S. Mota Singh Model School” کا آغاز ہوا اور 1981ء میں اسے جنک پوری کے عظیم الشان کیمپس میں منتقل کر دیا گیا۔ آج یہ ادارہ جدید سہولتوں، وسیع کھیل کے میدان اور معیاری تدریسی عملے کے ساتھ ایک شاندار درسگاہ ہے۔

یہ ادارہ نہ صرف اعلیٰ تعلیمی معیار پیش کرتا ہے بلکہ طلبہ میں ایمانداری، خود اعتمادی، سچائی اور خدمت کے جذبے کو پروان چڑھاتا ہے۔ 1982ء سے ہر سال “S.S. Mota Singh Memorial Hockey Tournament” منعقد کیا جاتا ہے، جو دہلی کے ممتاز اسکولوں کے لیے ایک بڑا کھیلوں کا ایونٹ بن چکا ہے۔

آج اس اسکول کی مختلف شاخیں دہلی میں علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں اور سردار موتا سنگھ جی کے خواب کو حقیقت میں بدل رہی ہیں۔ یہ ادارہ اس بات کی روشن مثال ہے کہ تعلیم، خدمت اور کردار سازی مل کر کس طرح ایک کامیاب نسل تیار کرتے ہیں۔ 🌟
https://www.ssmsschool.com/

Capt Muhammad Sadiq shahed Neela 💗

🌟🇵🇰 کیپٹن محمد صادق شہید – نیلہ کی پہچان 🇵🇰🌟

آج 26 ستمبر ہے۔ 21 ستمبر 1965 کو کیپٹن محمد صادق شہید وطنِ عزیز پر جان نچھاور کر کے امر ہو گئے۔ ہم اس موقع پر اُن کی بہادری، قربانی اور خدمات کو یاد کرتے ہیں اور سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔

کیپٹن محمد صادق شہید نیلہ کے مشہور سپوت ہی نہیں تھے بلکہ ہماری مقامی شخصیات سے بھی اُن کا قریبی تعلق تھا۔ وہ چیئرمین خالد سلیم کے سگے ماموں تھے یعنی چیئرمین خالد سلیم کی والدہ، کیپٹن صادق شہید کی سگی بہن تھیں۔ شہید کی والدہ محترمہ کا نام میرانی بی بی تھا اور اُن کے والد محترم سیٹھ جہانداد مرحوم تھے۔ بائیں جانب کی تصویر میں کیپٹن صادق شہید ہیں اور دائیں طرف اُن کی والدہ محترمہ نظر آتی ہیں۔

کیپٹن محمد صادق شہید (ستارۂ جرات) پاکستان آرمی کے وہ جوان تھے جنہوں نے بہادری، پیشہ ورانہ مہارت اور حب الوطنی کی لازوال مثال قائم کی۔ اُن کا تعلق ایک محبِ وطن خاندان سے تھا، اسی جذبے نے اُنہیں فوج میں شمولیت پر اُبھارا اور 19 اکتوبر 1958 کو کمیشن حاصل کیا۔ سن 1965 کی جنگ میں رن آف کچھ سے لے کر کشمیر اور سیالکوٹ کے محاذ تک، گولہ باری اور ٹینک حملوں کے طوفان میں بھی وہ ڈٹے رہے۔ شدید مزاحمت اور مشکل ترین حالات کے باوجود دشمن کے پاور ہاؤس پر قبضہ کرنے اور اپنے ساتھیوں کی حفاظت کا مشکل ترین مشن کامیابی سے مکمل کیا اور واپس یونٹ لوٹے۔

20 ستمبر کو زفر وال سیکٹر میں کمانڈر کی حیثیت سے جب پانچ دن اور پانچ راتیں مسلسل دشمن کے گولہ باری اور ٹینک حملوں کا سامنا تھا تو وہ ہمت و استقلال کی علامت بن کر ہر محاذ پر اپنے جوانوں کے ساتھ موجود رہے۔ دشمن کے تین اطراف سے گھیرے کے باوجود آگے بڑھ کر قیادت کی اور سیالکوٹ کے دفاع کو منظم رکھا۔ آخرکار 21 ستمبر 1965 کو وہ دشمن کی فائرنگ کی زد میں آ کر شہید ہو گئے۔ اُن کی میت 23 ستمبر کو ایک کھیت سے ملی۔

6 ستمبر 1966 کو صدر پاکستان جنرل ایوب خان نے اُن کی شجاعت، پیشہ ورانہ مہارت اور فرض شناسی کے اعتراف میں اُنہیں ستارۂ جرات سے نوازا۔
یہ اعزاز شہید کی والدہ محترمہ میرانی بی بی نے اپنے بیٹے کی شہادت کے بعد حاصل کیا، اور بیٹے کے اعزاز کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پورے گاؤں اور خاندان کے لیے فخر کا باعث بنیں۔ یہ منظر خود حب الوطنی، ماں کے صبر اور قربانی کی عظیم مثال ہے۔
آج بھی نیلہ گاؤں میں کیپٹن محمد صادق شہید کی وہ زمین جو انہوں نے وقف کی تھی، نمازِ جنازہ کی جگہ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے، جہاں پورے گاؤں کے جنازے ادا کیے جاتے ہیں۔ یہ اُن کی قوم و ملت سے محبت اور خدمت کا ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے جو آج بھی جاری ہے۔

اُن کے خاندان کا فوجی سلسلہ آج بھی قائم ہے اور اس خاندان کے نوجوان افسران آج بھی پاکستان آرمی میں حاضر سروس ہیں اور وطن کی حفاظت کی ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قربانی اور خدمت کا جذبہ اس خاندان میں نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔

افسوس یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل کے بہت سے لوگوں کو کیپٹن محمد صادق شہید کے بارے میں معلوم ہی نہیں۔ یہ ہماری نیلہ کی ایک اہم پہچان ہیں، ایک ایسی شناخت جسے ہم بھولتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ پورا ضلع چکوال ہی شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین ہے، لیکن ایسے لوگ ہماری اصل پہچان ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کو یاد رکھیں اور نئی نسل کو بتائیں کہ ہمارے گاؤں میں ایسے بھی عظیم لوگ تھے جنہوں نے وطن پر جان نچھاور کر کے شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔

آج ہم نہ صرف اُنہیں یاد کر رہے ہیں بلکہ اُن کے لیے دعا بھی کرتے ہیں:

> اے اللہ! کیپٹن محمد صادق شہید کے درجات بلند فرما، اُن کے خون کو ہماری قوم کے لیے برکت بنا، ہمیں بھی وطن کی خدمت اور قربانی کے لیے اسی اخلاص اور حوصلے سے نواز جو تُو نے اپنے ان عظیم سپوتوں کو دیا۔



یہ شہداء ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اُن کے لہو نے ہمیں آزادی اور وقار کا سایہ دیا۔ آج اگر ہم سکون سے سانس لے رہے ہیں تو یہ اُن جوانوں کی قربانیوں کا صدقہ ہے جو وطن کے لیے جانیں نچھاور کر گئے۔

"یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نگران اس کے"

آئیے ہم سب مل کر ان عظیم بیٹوں کو یاد رکھیں، ان کے مشن کو زندہ رکھیں، اپنے نوجوانوں کے دلوں میں حب الوطنی اور قربانی کا جذبہ تازہ کریں۔

🌹 سلامِ عقیدت کیپٹن محمد صادق شہید کو 🌹
🌹 سلامِ محبت تمام شہدائے پاکستان کو 🌹

#کیپٹن_محمد_صادق_شہید #ستارہ_جرات #پاکستان_آرمی #نیلہ_چکوال
https://www.facebook.com/share/p/1BzrMdFCtm/https://www.facebook.com/share/p/1BzrMdFCtm/

Monday, 22 September 2025

Neela Village of chakwal

Neela Village – A Hidden Gem in Punjab, Pakistan

Introduction

Neela is a historically rich and culturally vibrant village located in Punjab, Pakistan. Surrounded by green fields and hills, Neela carries a legacy of heritage, natural beauty, and stories passed down through generations. Despite being a small rural community, Neela Village is known for its unique landmarks, traditions, and warm-hearted people.

Location & Connectivity

Neela is situated near the Neela Interchange, connecting it to major highways and cities of Punjab. While transport is available 24/7 from the interchange, Neela Village itself still lacks direct public transport to big cities like Rawalpindi and Lahore — a long-standing issue for residents.

History & Heritage

Neela Village holds several important historical and cultural landmarks:

An unfinished temple from the 1947 partition era, left incomplete when the Sikh community migrated to India.

The legendary graves of Shirin and Farhad, which give Neela a romantic and historic identity.

A scenic hill under which the Sawan River flows, making it one of the most picturesque spots in the area.


Culture & Sports

In the past, Neela Village was famous for traditional events such as kabaddi matches and bull races. Today, these cultural activities have almost disappeared, though occasional cricket tournaments and small kabaddi matches still take place on special occasions like Eid.

Infrastructure & Issues

One of the major challenges in Neela Village today is the poor condition of its streets due to underground gas pipelines, which urgently need proper maintenance and repair.

Geography & Nature

A stream of the Sawan River flows beside Neela Village, sometimes overflowing during heavy rains. The surrounding hills, fields, and natural scenery make Neela a perfect spot for nature lovers and photographers.

Education

Neela Village has one of the oldest schools in the region, which has produced generations of educated youth despite limited facilities and political support.

Conclusion

Neela Village is not just a rural settlement — it is a living story of history, culture, and resilience. Its heritage landmarks, natural beauty, and community spirit make it stand out among villages of Punjab. With proper attention and development, Neela has the potential to become a model village for future generation.
Ubaid Neela

🌟 نیلہ کے قابلِ فخر شخصیت – خالد سلیم صاحب 🌟 نیلہ کے معروف سماجی رہنما جناب خالد سلیم صاحب، جنہیں ’’صدا بہار چیئرمین‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کئی سالوں تک سیاست اور عوامی خدمت سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کی دردمندی، خدمتِ خلق اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی انہیں نیلہ کا ہر دل عزیز بناتی ہے۔ 🌸 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت، تندرستی اور طویل عمر عطا فرمائے، تاکہ وہ اسی طرح اپنی خدمات سے گاؤں کے نوجوانوں کے لیے روشن مثال بنتے رہیں اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ ❤️ نیلہ کے نوجوانوں کے لیے خالد سلیم صاحب ایک زندہ مثال ہیں، جو ثابت کرتی ہے کہ محنت، خدمت اور دیانت سے معاشرہ بدل سکتا ہے۔ 🤝 آپ میں سے کتنے لوگ خالد سلیم صاحب کو ذاتی طور پر جانتے ہیں یا ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں؟ کمنٹس میں ضرور بتائیں اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کریں۔


🌟 نیلہ کے قابلِ فخر شخصیت – خالد سلیم صاحب 🌟

نیلہ کے معروف سماجی رہنما جناب خالد سلیم صاحب، جنہیں ’’صدا بہار چیئرمین‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کئی سالوں تک سیاست اور عوامی خدمت سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کی دردمندی، خدمتِ خلق اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی انہیں نیلہ کا ہر دل عزیز بناتی ہے۔

🌸 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت، تندرستی اور طویل عمر عطا فرمائے، تاکہ وہ اسی طرح اپنی خدمات سے گاؤں کے نوجوانوں کے لیے روشن مثال بنتے رہیں اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔

❤️ نیلہ کے نوجوانوں کے لیے خالد سلیم صاحب ایک زندہ مثال ہیں، جو ثابت کرتی ہے کہ محنت، خدمت اور دیانت سے معاشرہ بدل سکتا ہے۔

🤝 آپ میں سے کتنے لوگ خالد سلیم صاحب کو ذاتی طور پر جانتے ہیں یا ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں؟ کمنٹس میں ضرور بتائیں اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کریں۔

نیلہ سکول – خواب، حقیقت اور ہماری ذمہ داریاں نیلہ سکول ایک تاریخی ادارہ ہے۔ اس کی بنیاد 1947 سے پہلے ایک سکھ شخصیت، سردار موتا سنگھ بھاسن نے رکھی، جو تعلیم کی روشنی گاؤں کے ہر بچے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اُس وقت یہ ادارہ محبت، خدمت اور امن کی علامت تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سکول اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا اور آج تک نیلہ اور آس پاس کے دیہات کے بچوں کے لئے تعلیم کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج، 2025 میں بھی یہ سکول صرف دسویں جماعت تک محدود ہے۔ یہ سوال ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر کیوں؟ 🔹 ہماری کمزوریاں ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات میں تعلیم کو وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ سکول کی عمارت اور عملہ تو موجود رہا، لیکن وسائل بڑھانے اور سہولتیں فراہم کرنے میں ہماری رفتار سست رہی۔ 🔹 سیاسی کمزوریاں ہمارے علاقے کی سیاست زیادہ تر وقتی فائدوں، ذاتی تعلقات اور پارٹی وابستگیوں کے گرد گھومتی رہی۔ تعلیم جیسے بنیادی اور دیرپا کام پر وہ توجہ نہ دی گئی جو ہونی چاہیے تھی۔ نیلہ سکول کے توسیعی منصوبے، کالج کی سطح تک اپگریڈ کرنے یا بہتر عملہ فراہم کرنے کے اقدامات وقت پر نہ ہو سکے۔ 🔹 اتحاد کی کمی ہم نے ایک کمیونٹی کے طور پر مل کر آواز نہیں اٹھائی۔ اگر گاؤں والے، والدین، سابق طلبہ اور مقامی نمائندے ایک ساتھ ہو کر مستقل مہم چلاتے تو آج یہ سکول شاید انٹر یا ڈگری سطح تک ہوتا۔ 🔹 نتیجہ نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بچے دسویں جماعت کے بعد دور دراز کے سکولوں یا کالجوں میں جانے پر مجبور ہیں، جس سے نہ صرف اُن پر بلکہ اُن کے والدین پر بھی مالی و ذہنی بوجھ پڑتا ہے۔ 🔹 آگے کا راستہ یہ مایوسی کا مقام نہیں بلکہ سوچنے اور بدلنے کا لمحہ ہے۔ اگر آج ہم متحد ہو جائیں، سیاسی دباؤ ڈالیں، مقامی مخیر حضرات کو شامل کریں، اور حکومت کے اداروں کو مسلسل یاددہانی کروائیں، تو یہ سکول انٹر یا ڈگری لیول تک بڑھ سکتا ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو ہمیں سردار موتا سنگھ بھاسن اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کرنے کیلئے ادا کرنا ہے۔ 🌸 نیلہ سکول صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کا دروازہ ہے۔ اسے آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ---

نیلہ سکول – خواب، حقیقت اور ہماری ذمہ داریاں

نیلہ سکول ایک تاریخی ادارہ ہے۔ اس کی بنیاد 1947 سے پہلے ایک سکھ شخصیت، سردار موتا سنگھ بھاسن نے رکھی، جو تعلیم کی روشنی گاؤں کے ہر بچے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اُس وقت یہ ادارہ محبت، خدمت اور امن کی علامت تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سکول اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا اور آج تک نیلہ اور آس پاس کے دیہات کے بچوں کے لئے تعلیم کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج، 2025 میں بھی یہ سکول صرف دسویں جماعت تک محدود ہے۔ یہ سوال ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر کیوں؟

🔹 ہماری کمزوریاں

ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات میں تعلیم کو وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ سکول کی عمارت اور عملہ تو موجود رہا، لیکن وسائل بڑھانے اور سہولتیں فراہم کرنے میں ہماری رفتار سست رہی۔

🔹 سیاسی کمزوریاں

ہمارے علاقے کی سیاست زیادہ تر وقتی فائدوں، ذاتی تعلقات اور پارٹی وابستگیوں کے گرد گھومتی رہی۔ تعلیم جیسے بنیادی اور دیرپا کام پر وہ توجہ نہ دی گئی جو ہونی چاہیے تھی۔ نیلہ سکول کے توسیعی منصوبے، کالج کی سطح تک اپگریڈ کرنے یا بہتر عملہ فراہم کرنے کے اقدامات وقت پر نہ ہو سکے۔

🔹 اتحاد کی کمی

ہم نے ایک کمیونٹی کے طور پر مل کر آواز نہیں اٹھائی۔ اگر گاؤں والے، والدین، سابق طلبہ اور مقامی نمائندے ایک ساتھ ہو کر مستقل مہم چلاتے تو آج یہ سکول شاید انٹر یا ڈگری سطح تک ہوتا۔

🔹 نتیجہ

نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بچے دسویں جماعت کے بعد دور دراز کے سکولوں یا کالجوں میں جانے پر مجبور ہیں، جس سے نہ صرف اُن پر بلکہ اُن کے والدین پر بھی مالی و ذہنی بوجھ پڑتا ہے۔

🔹 آگے کا راستہ

یہ مایوسی کا مقام نہیں بلکہ سوچنے اور بدلنے کا لمحہ ہے۔ اگر آج ہم متحد ہو جائیں، سیاسی دباؤ ڈالیں، مقامی مخیر حضرات کو شامل کریں، اور حکومت کے اداروں کو مسلسل یاددہانی کروائیں، تو یہ سکول انٹر یا ڈگری لیول تک بڑھ سکتا ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو ہمیں سردار موتا سنگھ بھاسن اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کرنے کیلئے ادا کرنا ہے۔

🌸 نیلہ سکول صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کا دروازہ ہے۔ اسے آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔


---
نیلہ سکول – خواب، حقیقت اور ہماری ذمہ داریاں

نیلہ سکول ایک تاریخی ادارہ ہے۔ اس کی بنیاد 1947 سے پہلے ایک سکھ شخصیت، سردار موتا سنگھ بھاسن نے رکھی، جو تعلیم کی روشنی گاؤں کے ہر بچے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اُس وقت یہ ادارہ محبت، خدمت اور امن کی علامت تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سکول اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا اور آج تک نیلہ اور آس پاس کے دیہات کے بچوں کے لئے تعلیم کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج، 2025 میں بھی یہ سکول صرف دسویں جماعت تک محدود ہے۔ یہ سوال ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر کیوں؟

🔹 ہماری کمزوریاں

ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات میں تعلیم کو وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ سکول کی عمارت اور عملہ تو موجود رہا، لیکن وسائل بڑھانے اور سہولتیں فراہم کرنے میں ہماری رفتار سست رہی۔

🔹 سیاسی کمزوریاں

ہمارے علاقے کی سیاست زیادہ تر وقتی فائدوں، ذاتی تعلقات اور پارٹی وابستگیوں کے گرد گھومتی رہی۔ تعلیم جیسے بنیادی اور دیرپا کام پر وہ توجہ نہ دی گئی جو ہونی چاہیے تھی۔ نیلہ سکول کے توسیعی منصوبے، کالج کی سطح تک اپگریڈ کرنے یا بہتر عملہ فراہم کرنے کے اقدامات وقت پر نہ ہو سکے۔

🔹 اتحاد کی کمی

ہم نے ایک کمیونٹی کے طور پر مل کر آواز نہیں اٹھائی۔ اگر گاؤں والے، والدین، سابق طلبہ اور مقامی نمائندے ایک ساتھ ہو کر مستقل مہم چلاتے تو آج یہ سکول شاید انٹر یا ڈگری سطح تک ہوتا۔

🔹 نتیجہ

نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بچے دسویں جماعت کے بعد دور دراز کے سکولوں یا کالجوں میں جانے پر مجبور ہیں، جس سے نہ صرف اُن پر بلکہ اُن کے والدین پر بھی مالی و ذہنی بوجھ پڑتا ہے۔

🔹 آگے کا راستہ

یہ مایوسی کا مقام نہیں بلکہ سوچنے اور بدلنے کا لمحہ ہے۔ اگر آج ہم متحد ہو جائیں، سیاسی دباؤ ڈالیں، مقامی مخیر حضرات کو شامل کریں، اور حکومت کے اداروں کو مسلسل یاددہانی کروائیں، تو یہ سکول انٹر یا ڈگری لیول تک بڑھ سکتا ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو ہمیں سردار موتا سنگھ بھاسن اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کرنے کیلئے ادا کرنا ہے۔

🌸 نیلہ سکول صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کا دروازہ ہے۔ اسے آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔


---